چین لداخ میں بھارت کی غیر قانونی تعمیرات سے غافل نہیں رہ سکتا، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 27 مئ 2020
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ بھارت کی معاندانہ پالیسیز کا نوٹس لیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ بھارت کی معاندانہ پالیسیز کا نوٹس لیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے لداخ میں ’غیر قانونی تعمیرات‘ کی وجہ سے بھارت اور چین کے مابین حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاں چین مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہتا ہے وہاں وہ بھارت کی غیر قانونی تعمیرات سے غافل نہیں رہ سکتا۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ بھارت کی معاندانہ پالیسیز کا نوٹس لیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے لداخ، جو ایک متنازع علاقہ ہے، وہاں بھارت کی جانب سے سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر پر تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی بھارتی سڑکیں چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی وجہ بنیں، مبصرین

ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی کی ’پڑوسیوں کی خلاف جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے خطے کا امن و استحکام داؤ پر لگ رہا ہے‘۔

وزیر خارجہ نے اس جانب اشارہ کیا کہ نئی دہلی نے گزشتہ برس مقبوضہ کمشیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور کہا کہ اس اقدام سے بھارت کی جانب سے ’وادی کی آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے‘ عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کبھی شہریت ترمیمی بل، این آر سی جیسے متنازع قوانین متعارف کرواتا ہے جس سے بھارت کے اندر سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں، بھارت کو کبھی نیپال سے مسئلہ ہو جاتا ہے اور کبھی افغان امن عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتا ہے، کبھی یہ بلوچستان میں شورش کو ہوا دیتا ہے اور اب بھارت نے لداخ میں وہی حرکت کی ہے اور الٹا چین کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شاہ محمود نے دعویٰ کیا کہ ’بھارت، افغانستان کی سرزمین کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: بھارت توسیع پسند پالیسیوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وزیراعظم

وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’بھارت کے اندرونی حالات دگرگوں ہیں، معیشت کے برے حالات ہیں، کووڈ 19 کے دوران اٹھائے گئے اقدامات پر لوگ سراپا احتجاج ہیں چنانچہ اس داخلی صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت یہ سب ہتھکنڈے اپنا رہا ہے‘۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں بھارتی میڈیا میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ شمالی سکھم کے علاقے ناکو لا میں سرحد پر جھڑپ کے نتیجے میں متعدد چینی اور بھارتی فوجی زخمی ہوگئے۔

بھارتی اخبار دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں فوجی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’جھڑپ کا واقعہ فوجی اہلکاروں کے مابین پیش آیا اور دونوں اطراف کے فوجی معمولی زخمی ہوئے جس کے بعد مقامی سطح پر رابطے اور مذاکرات کے بعد فوجی دستے دستبردار ہوگئے۔

ذرائع نے کہا تھا کہ سرحدی معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے عارضی اور طویل جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور فوجی دستیں اس مسائل کو طے شدہ پروٹوکولز کے مطابق باہمی طورپر حل کرلیتے ہیں تاہم ’اس قسم کا واقع طویل عرصے بعد رونما ہوا‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

دوسری جانب سابق بھارتی فوجیوں کے انٹرویوز میں کہا گیا کہ بھارت کی جانب سے سڑکوں اور رن ویز کی تعمیر کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا تاہم اس معاملے پر بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

اس وقت دونوں ممالک کے فوجیوں نے بلند بالا علاقے لداخ کی وادی گالوان میں کیمپ قائم کیے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر متنازع سرحد پر دخل اندازی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں، اس متنازع سرحد کی وجہ سے 1962 میں بھارت اور چین کے درمیان خطرناک جنگ بھی ہوئی تھی۔

سرحد پر چینی حصے میں 80 سے 100 خیمے جبکہ بھارتی حصے میں 60 خیمے لگائے گئے ہیں جہاں فوجی مقیم ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی حکام نے لداخ کے دارالحکومت لیہہ اور نئی دہلی میں حکام کو معاملے سے آگاہ کردیا ہے۔

دونوں ممالک دفاعی تعمیرات کررہے ہیں اور چینی ٹرکس علاقے میں آلات پہنچا رہے ہیں جس سے طویل جھڑپ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں