پمز کا ملازمین میں کورونا پھیلنے کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیق کا فیصلہ

پمز میں 91 افراد کورونا وائرس سے شکار ہوئے—فائل/فوٹو:ڈان
پمز میں 91 افراد کورونا وائرس سے شکار ہوئے—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی اتنظامیہ نے 91 ملازمین میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد بڑی تعداد میں متاثر ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پمز کو 12 وینٹی لیٹرز موصول ہوئے جو نامکمل تھے تاہم دیگر ضروری آلات کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سے رابطہ کرلیا تھا۔

پمز کے ایک ڈاکٹر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال کے ڈاکٹر، نرس اور ملازمین سمیت 91 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اوران میں سے ایک کا انتقال ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ بیماری پھیلنے کا سبب بنے والے حالات کا تعین کرنے کے لیے تحقیق کی جارہی ہے اور محققیقین نتائج کا جائزہ لیں گے۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: پاکستان میں 68 ہزار 544 کیسز، 25 ہزار سے زائد صحتیاب

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ نیوسرجری ڈپارٹمنٹ میں 13 ڈاکٹر، 2 نرسز، پیتھالوجی میں 3 ڈاکٹروں، 13 ملازمین اور 3صفائی کا کام کرنے والے وائرس کا شکار ہوئے، اسی طرح گیسٹرو ڈپارٹمنٹ میں 2ڈاکٹر اور ایک نرس، نیورولوجی ڈپارٹمنٹ میں ایک ڈاکٹر، ریڈیالوجی میں 4 ڈاکٹر اور یورولوجی میں 3 ڈاکٹروں میں وائرس مثبت آیا۔

ان کاکہنا تھا کہ مدر اینڈ چائد ہسپتال میں 8 ڈاکٹر متاثر ہوئے، پیڈز سرجری اور آپریشن تھیٹر میں 2 ڈاکٹر اور 9 ملازمین، انستھیزیا ڈپارٹمنٹ میں تین ملازمین، آرتھو پیڈک میں دو ڈاکٹر، جنرل میڈیسن میں 5 ڈاکٹر اور اورومیکسیلوفیشل سرجری میں ایک ڈاکٹر بیمار ہوا۔

بچوں کے شعبے میں 3 ڈاکٹر، ایک ملازم اور ایک صفائی والا متاثر ہوا، کارڈیک سرجری میں ایک ملازم، جنرل سرجری میں دو ڈاکٹر، تین ڈاکٹر ایڈمن، دو ڈاکٹر اوفتھالمولوجی، ایک ملازم پیتھالوجی اور دو ڈاکٹر دیگر شعبہ جات میں متاثر ہوئے۔

ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اسفندیار خان کا کہنا تھا کہ متاثر ہونے والے اکثر افراد کورونا وارڈ کے علاوہ دیگر شعبوں میں کام کررہے تھے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے عام لوگ کورونا وائرس سے کس طرح متاثر ہورہے ہیں اور ان سے طبی عملے میں منتقل ہورہا ہے اور پھر یہ عملہ اپنے مریضوں اور خاندانوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اب بھی صرف آئسولیشن وارٹ میں کام کرنے والے عملے کو حفاظتی اشیا فراہم کرنے پر زور دے رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سول و جناح ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ: وزیراعلیٰ سندھ کی سخت کارروائی کی ہدایت

ڈاکٹر اسفندریار نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) کو بند کردینا چاہیے اور ٹیلی میڈیسن پر توجہ دینی چاہیے۔

پولی کلینک سے ریٹائرڈ طبی ماہر ڈاکٹر چشریف استوری کا کہنا تھا کہ حکومت کوسرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز کھولنے کا نہیں سوچنا چاہیے.

ان کا کہنا تھا کہ او پی ڈیز کو اس وقت بند کردیا گیا تھا جب کیسز سیکڑوں میں تھے لیکن اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں حالات مزید واضح ہوئے ہیں۔

پمز جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج سیراج نے تحقیق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہسپتال میں 91 افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثر ہونے والے اکثر ملازمین آئسولیشن وارڈ سے باہر کام کررہے تھے اور میں نے رپورٹ حاصل کرنے کے بعد وبائی تحقیق کی ہدایت کی ہے تاکہ ہم مزید اقدامات کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔

ڈاکٹر منہاج سیراج نے کہا کہ ہسپتال میں پی پی ایز کی کمی نہیں ہیں۔

پمز کو این ڈی ایم اے کی جانب سے 12 وینٹی لیٹر ملے تھے جو نامکمل تھے لیکن دیگر آلات کی فراہمی کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر منہاج سیراج نے کہا کہ آئسولیشن وارٹ میں ابتدائی طور پر 8 وینٹی لیٹر تھے لیکن چند دن قبل کارڈیک آئی سی یو سے 3 وینٹی لیٹر بھی آئسولیشن وارڈ منتقل کردیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں