حکومت پنجاب نے پولیس کے بجٹ میں 3 ارب روپے کی کمی کردی

اپ ڈیٹ 01 جون 2020
یہ کمی ایسے وقت میں ہوئی جب پنجاب میں 4 پولیس اہلکار کورونا وائرس سے جاں بحق اور دیگر 650متاثر ہوچکے ہیں —فائل فوٹو: اے پی
یہ کمی ایسے وقت میں ہوئی جب پنجاب میں 4 پولیس اہلکار کورونا وائرس سے جاں بحق اور دیگر 650متاثر ہوچکے ہیں —فائل فوٹو: اے پی

لاہور: حکومت پنجاب نے کوونا وائرس کے خلاف جنگ میں پولیس اہلکاروں کی بطور فرنٹ لائن خدمات کے اعتراف کے بجائے پنجاب پولیس کے بجٹ میں 3 ارب روپے کی کمی کردی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے ایندھن کے لیے مختص فنڈز میں سے 40 کروڑ روپے، تفتیشی لاگت سے 7 کروڑ 70 لاکھ روپے، اسٹیشنری سے 4 کروڑ 10 لاکھ روپے، بجلی کے بلز کے لیے مختص 12 کروڑ روپے اور جاں بحق پولیس اہلکارو ں کے خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنے سے متعلق گرانٹ میں 25 کروڑ روپے کی کمی کردی۔

انہوں نے کہا کہ یہ 'چونکانے والی' پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پنجاب میں 4 پولیس اہلکار کورونا وائرس سے جاں بحق اور دیگر 650متاثر ہوچکے ہیں۔

حال ہی میں لاہور میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے بھائی نے کہا کہ اگر کٹوتی کا مقصد اس رقم کو انسداد کورونا اقدامات سے متعلق حکومتی فنڈ میں منتقل کرنا ہے تو پولیس سے زیادہ کوئی اور فنڈنگ کا مستحق نہیں کیونکہ پنجاب کے حکومتی محکموں میں اب تک کورونا کے سب سے زیادہ کیسز پولیس میں سامنے آئے ہیں۔

مزید پٖڑھیں: پنجاب کے مختلف اضلاع میں کورونا وائرس سے 33 پولیس اہلکار متاثر

انہوں نے کہا کہ عوام سے رابطے کے باعث ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کے ساتھ ساتھ کم رینک والے پولیس اہلکار کے وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن پولیس اہلکاروں کے ٹیسٹ کیے گئے ان میں سے 10 فیصد کورونا میں مبتلا ہیں اور بجٹ میں یہ کٹوتی پولیس کو وبا کے خلاف جنگ میں مفلوج کردے گی۔

مذکورہ معاملے سے آگاہ سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ یہ کٹوتی غیر منصفانہ ہے کیونکہ پنجاب پولیس کو پہلے ہی کوسٹ آف انویسٹی گیشن کی مد میں 25 کروڑ میں سے 18 کروڑ روپے ملے جبکہ اس حوالے سے مطلوبہ رقم 2 ارب 30 کروڑ روپے ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پنجاب پولیس کا آپریشنل بجٹ کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث پولیس کے لیے اپنے یومیہ آپریشن چلانا مشکل ہورہا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ مجموعی صوبائی بجٹ میں پولیس کا حصہ 12-2011 میں 9 فیصد سے کم ہوکر 20-2019 میں 5 فیصد ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں تنخواہ کا عنصر بڑھ رہا ہے جبکہ آپریشنل حصہ کم ہورہا ہے اور بجٹ کا صرف 15 فیصد حصہ آپریشنز کے لیے مختص ہے۔

مالی سال 20-2019 کے آغاز پر پنجاب پولیس کے لیے 117 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا جس میں سے 100 ارب تنخواہوں کے لیے مختص کیا گیا جبکہ 17 ارب روپے آپریشنل اخراجات کی مد میں جاری کیے جانے تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ آپریشنل اخراجات میں 3 ارب روپے کی کمی کرتے ہوئے 14 ارب روپے جاری کیے گئے تھے۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ موجودہ 114 ارب روپے میں سے 100 ارب تنخواہوں، ساڑھے 4 ارب ایندھن جبکہ ایک ارب روپے بجلی کے بلز کے لیے رکھے گئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح 4 ارب روپے پولیس کے دیگر یونٹس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے رکھے جائیں گے جن میں اسپیشل برانچ، ایلیٹ فورس، انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ، ٹریفک، اسپیشل پروٹیکشن یونٹ، تربیت کے لیے شامل ہیں۔

پولیس عہدیدار نے کہا کہ دیگر رقم پنجاب پولیس کے دیگر سربراہان کے لیے استعمال ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ سروس کے دوران جاں بحق ہونے والے افسران کے خاندانوں کے لیے مختص فنڈز میں بھی کمی کی گئی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے ملازمین (کانسٹیبلز سے لے کر انسپکٹر جنرل تک) کی تنخواہیں 2009 سے منجمد ہیں جس کے نتیجے میں پولیس افسران کے بجائے ان کے برابر رینک کے دیگر محکموں کے افسران زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔

پولیس افسر نے کہا کہ 2019میں موجودہ حکومت نے پولیس الاؤنسز ڈی فریز کرنے پر اتفاق کیا تھا اور 2008 سے فکسڈ ڈیلی الاؤنس (ایف ڈی اے) کو 2013 کی قدر کے برابر کردیا تھا۔

عہدیدار نے کہا کہ اگست 2019 میں محکمہ خزانہ نے بڑھائی گئی رقم کا 80 فیصد جاری کیا اور جنوری 2020 میں دیگر 20 فیصد جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری کے باوجود پہلے سے منظور شدہ 20 فیصد ایف ڈی اے بیووکریسی کی تاخیر کا شکار ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں 15 پولیس اہلکار کورونا کا شکار، ڈی آئی جی کا محافظ بھی شامل

انہوں نے پولیس میں تفریق کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جب وزرائے قانون اور خزانہ پر مشتمل کمیٹی نے 2019 میں پولیس الاؤنس ڈی فریز کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا تو ضلعی انتظامیہ کے افسران میں اضافے پر غور نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم جب کابینہ کے سامنے تجاویز پیش کی گئی تو بی ایس-17 اور پی اے ایس/ پی ایم ایس سے زائد افسران کے لیے ایگزیکٹو الاؤنس (تنخواہ کا 1.5 فیصد) ایکس-ایجنڈا آئٹم کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور حیران کن طور پر منظور بھی ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی تنخواہوں میں بڑا فرق پڑا تھا جس کے نتیجے میں پی اے ایس/ پی ایم ایس افسران اسی رینک کے پولیس افسران سے دگنی تنخواہ لے رہے ہیں۔

عہدیدار نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعلیٰ نے پولیس افسران کے ایگزیکٹو الاؤنس میں توسیع کی بھی منظوری دی تھی لیکن بیوروکریسی نے اس میں تاخیر کے لیے ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی تجویز دی، اس تفریق کی وجہ سے صرف پولیس فورس کی حوصلہ شکنی ہوگی۔


یہ خبر یکم جون، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں