بی آر ٹی کی تحقیقات کے فیصلے پر حکم امتناع میں مزید توسیع

اپ ڈیٹ 03 جون 2020
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو پشاور کے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات سے غیر معینہ مدت تک کے لیے روک دیا۔ فائل فوٹو:عبدالمجید گورایا
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو پشاور کے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات سے غیر معینہ مدت تک کے لیے روک دیا۔ فائل فوٹو:عبدالمجید گورایا

سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف خیبرپختونخوا کی حکومت اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو التوا مانگنے کے بجائے کیس چلانے کی ہدایت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کے پی حکومت کی اپیل کو زیادہ عرصہ حکم امتناع میں نہیں رکھنا چاہتے، کے پی حکومت بی آر ٹی کیس کو چلائے التوا نہ مانگے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: بی آر ٹی کی تحقیقات کے فیصلے پر حکم امتناع میں توسیع

عدالت نے سماعت کے دوران بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بطور عدلیہ منصوبے کے حوالے سے مخصوص چیزوں کا جائزہ لینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی منصوبہ کی شفافیت کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ منصوبے کا تعمیراتی ٹھیکہ کیسے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’بی آر ٹی منصوبے میں کہیں مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟ کے پے حکومت نے کہیں ادھورے منصوبے پر اربوں روپے تو خرچ نہیں کر دیے؟‘

انہوں نے کہا کہ ’دیکھنا ہے کہ منصوبے میں غلطیوں کے ازالے کے حوالے سے کیا ہو سکتا ہے، منصوبہ کہیں بغیر تیاری کے تو شروع تو نہیں کیا گیا‘۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’اس کے ڈیزائن میں بار بار عوام کے پیسے سے تبدیلی کی گئی، منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کا جائزہ بھی لیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی کی تکمیل کیلئے مزید ایک ماہ درکار ہے، حکومت خیبرپختونخوا

عدالت میں خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے التواء کی درخواست دی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے مقدمہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔

بی آر ٹی منصوبہ

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 17 جولائی 2018 کو نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے معاملات کی مکمل تفتیش اور تحقیقات کرے تاہم صوبائی حکومت اور پی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں سول پٹیشن دائر کرتے ہوئے اس عدالتی حکم کو معطل کرنے کی استدعا کی تھی۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا اور نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکی تھیں۔

بعدازاں گزشتہ برس نومبر میں 2 درخواست گزاروں افضل کریم آفریدی اور عدنان آفریدی نے حیات آباد ٹاؤن شپ میں واقع اپنے گھروں کے ساتھ تعمیر شدہ منصوبے کے مخلتف حصوں پر پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ عیسیٰ خان نے بھی عدالت سے استدعا کی تھی کہ منصوبے میں زیادہ سے زیادہ 100 میٹر کے فاصلے پر بالائی گزر گاہ یا زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا حکم دیا جائے۔

جس پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

بینچ نے 35 نکات تشکیل دے کر ایف آئی اے کو ان پر تحقیقات اور اس میں پائی جانے والی خامیوں پر کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

11 دسمبر کو خیبرپختونخوا میں ایف آئی اے کی 5 رکنی خصوصی انکوائری ٹیم نے پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔

جس پر 24 دسمبر کو خیبرپختونخوا حکومت نے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور حکم امتناع حاصل کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں