ایکٹیمرا انجیکشن ہدایات کے بغیر استعمال کیا تو نقصانات زیادہ ہوں گے، وزیر صحت پنجاب

اپ ڈیٹ 09 جون 2020
یاسمین راشد نے واضح کیا کہ ایکٹیمرا انجیکشن جان بچانے کی وجہ نہیں— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز
یاسمین راشد نے واضح کیا کہ ایکٹیمرا انجیکشن جان بچانے کی وجہ نہیں— اسکرین شاٹ: ڈان نیوز

پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ایکٹیمرا انجیکشن جان بچانے کی دوا نہیں اور اگر ہدایات کو نظرانداز کر کے اس کا استعمال کیا گیا تو اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہیں۔

یاسمین راشد نے لاہور میں ماہرین صحت کے ہراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 24گھنٹے میں 9ہزار 23 ٹیسٹ کیے گئے جبکہ اب تک کُل 2لاکھ 99ہزار 57 ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وبا: پنجاب میں ایک روز میں ریکارڈ 58 اموات، ملک میں متاثرین ایک لاکھ 10ہزار سے زائد

ان کا کہنا تھا کہ لاہور وائرس کا مرکز ہے اور اس وقت لاہور میں 19ہزار 299 متاثرہ افراد موجود ہیں جس میں ایک تہائی صحتیاب ہو چکے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ راولپنڈی میں 3ہزار 196 افراد وائرس کا شکار ہوئے ہیں، گوجرانوالہ میں ایک ہزار 766 ، ملتان میں 2ہزار 261 اور فیصل آباد میں 2ہزار 765 مصدقہ مریض موجود ہیں۔

یاسمین راشد نے کہا کہ ہم نے لوگوں کو پہلے ہی کہا تھا کہ اگر آپ ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے تو مریضوں کی تعداد بڑھے گی اور جب ہم نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی تو لوگوں کا خیال تھا کہ یہ وبا کہیں چلی گئی ہے لیکن ہم نے انہیں باور کرایا کہ یہ وبا موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھتے ہی ہسپتالوں پر دباؤ میں اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ یہ وبا ہمارے ساتھ ہی رہے گی جیسے ڈینگی ہمارے ساتھ ہے، ہمیں حفاظتی تدابیر اختیار کرنی ہیں، اس سلسلے میں ایس او پیز بھی بنائے گئے لیکن لوگوں کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ آپ کی زندگی کی حفاظت سب سے اہم ہے اور یہ آپ پر بھی بہت بڑا فرض بنتا ہے کہ آپ اپنی حفاظت خود کریں۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان میں سے 75فیصد کی عمر 50سال سے زائد تھی اور وہ شوگر، بلڈ پریشر، کینسر سمیت مختلف بیماریوں کا شکار تھے جس کی وجہ سے ان کا مدافعتی نظام کمزور تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں ہر جگہ بیڈز اور وینٹی لیٹر دستیاب ہیں لیکن ہر ہسپتال ایک حد تک ہی دباؤ برداشت کر سکتا ہے مگر میں لوگوں کی تسلی کے لیے بتانا چاہتی ہوں کہ صرف لاہور میں ایچ ڈی یونٹس میں 53مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایسا ہسپتال نہیں جہاں وینٹی لیٹر کی سہولت میسر نہیں اور ہم نے جہاں کہیں بھی ایچ ڈی یو بنائے ہیں، وہاں وینٹی لیٹر کی سہولت بھی رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: جارج فلائیڈ قتل: ملزم پولیس اہلکار کی ضمانت کیلئے 10 لاکھ ڈالر کی رقم مقرر

ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے ہسپتالوں میں آئی سی یو 62فیصد بھر چکے ہیں اور ہمارے پاس وہاں بھی مریضوں کو رکھنے کی کافی گنجائش موجود ہے لہٰذا لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ خود سے کسی ہسپتال جانے کے بجائے 1122 پر کال کریں، وہ خود آ کر مریض کو لے جائیں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کس ہسپتال میں جگہ میسر ہے اور صورتحال کے حساب سے مریض کو کس ہسپتال میں لے جانا چاہیے۔

وزیر صحت نے کہا کہ اکثر لوگ افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی سے کسی بھی ہسپتال میں چلے جاتے ہیں لہٰذا ہمیں فیصلہ کرنے دیں کہ مریض کو کہاں لے کر جانا ہے۔

انہوں نے باور کرایا کہ یہ حکومت کی جانب سے عوام کو فراہم کی جانے والی بہت بڑی سہولت ہے کیونکہ اگر نجی ہسپتال میں جانا پڑے تو ایک دن کا آئی سی یو کا خرچ ایک لاکھ روپے ہے جبکہ ایچ ڈی یو میں 50 سے 70ہزار خرچ ہوتے ہیں لیکن یہاں حکومت مفت ادویات سمیت تمام سہولیات فراہم کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سیاسی میدان میں جاوید میانداد کا کردار اسد عمر ادا کررہے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ایکٹیمرا انجیکشن کے ہمیں فوائد نظر آئے ہیں اور ہم نے اس پر کام شروع کردیا ہے جبکہ دنیا کے مقابلے میں ایک بہت بڑا ٹرائل کرنے لگے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ہزار مریضوں پر اس دوا کے ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔

اس موقع پر ماہر صحت ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا کہ اس دوا ایکٹیمرا کا عمومی استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمیں کچھ شواہد موصول ہوئے تھے کہ یہ دوا مفید ہو سکتی ہے اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ٹرائل کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کرتے ہوئے کچھ مخصوص علامات میں اور مخصوص مریضوں پر ہی دوا کو استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس دوا کے نقصانات بھی بہت ہیں، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔

ڈاکٹر محمود شوکت نے واضح کیا کہ یہ دوا اتنی کنٹرول ڈرگ ہے کہ جو کمپنی اس دوا کو بناتی ہے تو اسے بھی بین الاقوامی سطح پر اس دوا کو مارکیٹ میں بیچنے کی اجازت نہیں اور یہ براہ راست کمپنی سے ہی لینی پڑتی ہے۔

مزید پڑھیں: ووہان میں کورونا کی وبا اکتوبر میں پھیلنا شروع ہوئی، امریکی تحقیق

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہونا غلط ہے کہ یہ دوا فوری طور پر دی جائے یا ہر مریض کو دی جائے، اگر یہ دوا ہدایات اور ٹیسٹ کے بغیر دی گئی تو اس کا نقصان زیادہ ہو گا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ اس دوا کے غلط استعمال کی اطلاعات موصول ہوئیں اسی لیے ہم نے اس موضوع کو زیر بحث لانا ضروری سمجھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ انجیکشن صرف کمپنی بناتی ہے اور انتہائی محدود تعداد میں بناتی ہے اور ہمارے ماہرین نے کمپنی سے گفتگو کر کے ایک قیمت کا تعین کیا ہے جس کے بعد مکمل دوا ایک لاکھ 2ہزار روپے کی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 400ملی گرام کا انجیکشن 24گھنٹے میں ایک مرتبہ لگے گا جبکہ اگر 200 ملی گرام کے ہوں تو دو لگیں گے اور پھر 24 گھنٹے میں صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے دوبارہ لگایا جائے گا۔

وزیر صحت نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ انجیکشن وزارت صحت کے علم میں لائے بغیر سرکاری یا نجی ہسپتال میں استعمال نہیں ہو گا۔

ڈاکٹرز کی جانب سے اس انجیکشن کو تجویز کرنے اور استعمال کیے جانے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ اس مرض کا دنیا میں کہیں بھی کوئی علاج موجود نہیں لہٰذا ڈاکٹرز جان بچانے کے لیے ہر قسم کی کوشش کر رہے ہیں، کوئی پروفیسر اگر یہ دوا لکھ کر دے رہا ہے تو اس کی نیت پر شک نہ کریں۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ اس دوا کے استعمال کا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت ٹیسٹ کرانے ہوتے ہیں، ڈی ڈائمرز ہیں اور دیگر علامات ہیں جنہیں ہم نے سب کو بھیج دیا ہے اور ان سب چیزوں کو مدنظر رکھ ہی اس دوا کا استعمال کر سکیں گے اور یہ ہدایات ماہرین نے بنائی ہیں تاکہ دوا کا غلط استعمال نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ زندگی بچانے کی دوا نہیں ہے بلکہ کچھ مریضوں پر اس کا اچھا اثر ہو گا اور کچھ ایسے مریض بھی ہیں جن پر اچھا اثر نہیں ہو گا اور اسے لیے دنیا کا لٹریچر پڑھ کر یہ ہدایات وضع کی گئی ہیں تاکہ کسی کو غلط انجیکشن نہ لگے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں