وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں لاک ڈاؤن کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عوام نے لاک ڈاؤن میں نرمی پر احتیاط نہیں کی تو ملک کو نقصان اٹھانا پڑے گا اس لیے عوام کو ذمہ داری ادا کرنی پڑے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک تصور تھا کہ ہم لاہور کو پھر لاک ڈاؤن کریں تو میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ لاک ڈاؤن کا مطلب وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے پوری معیشت کو بند کردینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے شروع سے تاثرات ہیں کہ اگر ہمارا ملک سنگاپور جیسا چھوٹا ملک ہوتا جس کی 50 لاکھ کی آبادی ہے، تائیوان یا نیوزی لینڈ کی طرح ہوتا جہاں 30 لاکھ آبادی ہے تو اس ملک کو لاک ڈاؤن کرنا بڑا آسان کام ہے، یہ امیر ملک ہیں جن کی سالانہ آمدنی 30، 50 ہزار ڈالر ہے، ان کو بند کردینے سے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور ہمارے مختلف حالات ہیں، جب ہم لاک ڈاؤن کرتے ہیں اور معاشی سرگرمیاں معطل ہوتی ہیں تو دہاڑی دار طبقے پر سارا بوجھ پڑتا ہے اور وہ بے روزگار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک کے اندر صرف ایک ہی چیز ہے کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن، سوچھ سمجھ کر لاک ڈاؤن کریں تاکہ معاشی پہیہ بھی چلے اور غریب پر بھی بوجھ نہ پڑے اور ساتھ ساتھ کورونا کا پھیلاؤ بھی روکتے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' متعارف کرانے والوں میں سے ہے، وزیر اعظم

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ مشکل کام تھا، دونوں طرف کو چلانا کبھی بھی آسان کام نہیں تھا۔

عمران خان نے کہا کہ آج نیویارک کا گورنر جو دنیا کا سب سے امیر شہر ہے جس کا صحت کا بجٹ ہمارے ملک کے پورے سے بجٹ سے دو تین گنا زیادہ ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ نیویارک کا لاک ڈاؤن سے دیوالیہ نکل گیا ہے تو ہم جیسے ملکوں کا کیا ہوا ہوگا اور جب ہم بجٹ بنانے آئے ہیں تو کتنا مشکل ہوا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں تین مہینوں میں جتنی اموات ہوئی ہیں نیویارک میں ایک دن میں اس کے قریب ہوئی ہیں، اس لیے وہاں زیادہ مشکل حالات تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ہسپتالوں میں زیادہ دباؤ تھا۔

لاک ڈاؤن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جتنی دیر آپ کسی ملک کو بند کردیتے ہیں اتنی اس کی معیشت خراب ہوتی ہے.

انہوں نے کہا کہ جب نیویارک کا دیوالیہ نکل سکتا ہے تو سوچیں کہ ہمارے جیسے ملک میں کتنی مشکلات آئیں، جو آمدنی اوپر جارہی تھی وہ نیچے چلی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی آیا ہوں یہی کہا ہے کہ احتیاط نہیں کی تو آگے مشکل حالات آئیں گے، ایس او پیز کا مطلب ہے کہ احتیاط کرنا، احتیاط کرنا عوام کی ذمہ داری ہے اور اگر احتیاط نہیں کریں گے تو اس ملک کو آخر میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر زیادہ لوگ بیمار ہوتے ہیں تو ہمارے ملک میں کبھی بھی ہسپتال کی ایسی سہولت موجود نہیں تھی اسی لیے میں بار بار کہتا رہا کہ ایس او پیز پر عمل کریں۔

عوام کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ جب ہم آپ کو کاروبار کھولنے کا موقع دے رہے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ احتیاط کریں تاکہ ہسپتالوں پر کم دباؤ ہوگا اور ہم ہسپتالوں میں زیادہ لوگوں کو علاج کرپائیں گے۔

مزید پڑھیں: 'لاک ڈاؤن سے متعلق حکومتی جوئے کے باعث ملک میں وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوا'

ان کا کہنا تھا کہ اگر احتیاط نہیں کریں گے اور وائرس پھیلنا شروع ہوا تو سارا دباؤ ہسپتالوں پر ہوگا اور ابھی پڑ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشد کے ساتھ بیٹھ کر بات کی اور پنجاب کے حوالے بریفنگ لی اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب ہمیں سختی کرنی پڑے گی لیکن لاک ڈاؤن نہیں کریں گے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم مخصوص لاک ڈاؤن کریں گے، پہلے ہاٹ اسپاٹ کو ٹریس کریں گے اور ان مقامات کو بند کریں گے اور شاید ہمیں زیادہ رضاکاروں کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمیں اس کا پھیلاؤ روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے انتظامیہ اور رضاکار مل کر زور لگائیں گے۔

ایس او پی پیز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی چیز ماسک ہے، اب عوامی مقامات میں کسی کو ماسک کے بغیر جانے نہیں دیں گے کیونکہ یہ ضروری ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد — فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر یاسمین راشد — فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے عوام سے کہا کہ معاشی حالات کی وجہ سے لاک ڈاﺅن ختم کر رہے ہیں تو لوگوں نے سمجھا کہ بیماری ختم ہو گئی اور عوام کی بے احتیاطی کی وجہ سے کیسز کی تعداد بڑھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ باقی صوبوں کے بھی دورے کریں گے اور صورتحال کی خود پی ایم سیکریٹریٹ سے نگرانی کریں گے اور دیکھیں گے کہ کس صوبے میں کن شعبوں میں ایس او پیز پر کتنا عملدرآمد ہو رہا ہے، جبکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ اس سلسلے میں رابطے کریں گے۔

اس موقع پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ صوبے میں کورونا کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں 10 ہزار بیڈز دستیاب ہیں، اس وقت 3 ہزار 55 مریض داخل ہیں جن میں 215 تشویشناک اور 193 وینٹی لیٹرز پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ضروری طبی سہولیات سے آراستہ ایک ہزار بیڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے امریکا سے ٹرائل انجکشن منگوانے کی بھی اجازت دی ہے۔

کورونا سے متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کیلئے سوفٹ ویئر تیار

وزیر اعظم کے فوکل پرشن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس سے زیادہ متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کے لیے ایک جدید سوفٹ ویئر تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سوفٹ ویئر سے انتظامیہ کو اسمارٹ لاک ڈاؤن یا سخت پابندیوں پر عملدرآمد میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار جبکہ لگ بھگ 2 ہزار 600 جاں بحق ہوچکے ہیں۔

ملک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو آیا تھا اور اب اس وبا کو ساڑھے 3 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم ابتدا میں اس کے پھیلاؤ میں کمی رہی لیکن اب صورتحال تشویش ناک ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں