لندن میں مظاہرے: پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد 100 سے زائد مظاہرین گرفتار

14 جون 2020
پولیس نے ریلیوں کے شرکا کو منتشر کرنے کی کوشش کی—فوٹو:رائٹرز
پولیس نے ریلیوں کے شرکا کو منتشر کرنے کی کوشش کی—فوٹو:رائٹرز

لندن میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ (سیاہ فام کی زندگیوں کی بھی قدر) اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے درمیان تکرار ہوئی جبکہ پولیس کے بیچ بچاؤ کرانے پر کشیدگی کے بعد 100 سے زائد افراد گرفتار کرلیے گئے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ہزاروں افراد مجسموں کی حفاظت کا کہہ کر سڑکوں پر جمع ہوگئے جن کا تعلق دائیں بازو سے تھا اور انہوں نے پولیس پر حملے بھی کیے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’ہماری سڑکوں پر نسل پرست لٹیروں کی کوئی جگہ نہیں ہے‘۔

واضح رہے کہ 2017 میں ویسٹ منسٹر حملے میں ہلاک ہونے والے پی سی کیتھ پالمر کی یادگار کے پاس ایک شخص کو پیشاب کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔

ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کا کہنا تھا کہ پی سی پالمر کی یادگار کی ’بے حرمتی‘ انتہائی شرمناک ہے۔

مزید پڑھیں: لندن میں نسل پرستوں کا مخالفین کی ریلی سے تصادم

میٹروپولیٹن پولیس کمانڈر باس جاوید کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پی سی پالمر کی یادگار پر پیشاب کرتے ہوئے دکھائے جانے والے ایک شخص کی سوشل میڈیا پر ایک گھناؤنی تصویر کے بارے میں علم ہے‘۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور ہم اس کے خلاف موجود تمام شواہد اکٹھا کریں گے اور کارروائی کریں گے‘۔

رکن پارلیمنٹ ٹوبیاس ایل ووڈ، جنہوں نے پی سی پالمر کو ابتدائی طبی امداد دی جب وہ 2017 میں خالد مسعود کے ہاتھوں پارلیمنٹ کے گراؤنڈ میں چاقو کے وار کے بعد زخمی ہوگئے تھے، انہوں نے کہا کہ اس یادگار کے ساتھ پیشاب کرنے والے شخص کی تصویر ’مکروہ‘ ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اسے پوری طرح علم تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے، اسے آگے بڑھ کر معذرت کرنی چاہیے‘۔

علاوہ ازیں ہفتے کے روز لندن اور ملک بھر میں نسل پرستی کے خلاف پرامن احتجاج بھی کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے ہونے والی جنگ کی داستان

اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بتایا کہ انہوں نے لوگوں کو تشدد پر اکُسانے، پولیس پر حملے، اسلحہ رکھنے، امن و امان کی صورتحال خراب کرنے، نشے میں ہونے اور منشیات رکھنے جیسے جرائم میں لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن نے ٹوئٹ کیا کہ ’نسل پرست لٹیروں کی ہماری سڑکوں پر کوئی جگہ نہیں، جو بھی پولیس پر حملہ کرے گا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان مارچ اور مظاہروں کو تشدد اور موجودہ گائیڈلائنز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدل دیا گیا ہے، برطانیہ میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے اور ہمیں اسے حقیقت بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے‘۔ ۔ ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے یہ مظاہرین، جن میں سے چند کا تعلق دائیں بازو سے ہے، نے بتایا کہ وہ مجسموں کو نسل پرستی کے خلاف سامنے آنے والے مظاہرین سے بچانے کے لیے لندن آئے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں سیکڑوں سفید فام افراد وائٹ ہال میں سینٹوف جنگی یادگار اور پارلیمنٹ اسکوائر پر ونسٹن چرچل کے مجسمے کے ارد گرد جمع ہوئے تھے۔

چونکہ دائیں بازو کے مظاہرین سمیت بڑے گروپ لندن پہنچے تو پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی شروع ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیاہ فام کی ہلاکت پر امریکا بھر میں پرتشدد مظاہرے

افسران پر پتھراؤ کے علاوہ ان کی گھونسوں اور لاتوں سے پٹائی بھی کی گئی جس میں 6 پولیس افسران زخمی ہوئے۔

لندن ایمبولینس سروس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس نے مظاہروں میں زخمی ہونے پر دو پولیس افسران سمیت 15 افراد کا علاج کیا ہے۔

دوسری جانب اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز لندن کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور سیاہ فام افراد کے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے مظاہرین میں جھڑپ ہوئی تھی اور پولیس ان دونوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے کوششیں کر رہی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ترافلگر اسکوائر اور اس کے گردو نواح میں چند چھوٹے مظاہرین نے کشیدگی کے دوران ایک دوسرے پر بوتل اور کینیں پھینکیں۔

دائیں بازو کے گروپ نے نسل پرست جملے کسے جبکہ نسل پرستی کے مخالف مظاہرین مشتعل ہوکر پولیس کی جانب سے لگائی گئی باڑ کو توڑنے کی کوشش کی۔

لندن کے میئر صادق خان نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ دائیں بازو کا گروہ تشدد کی وجہ بن رہا ہے، میں عوام سے اس سے دور رہنے کی اپیل کرتا ہوں‘۔

خیال رہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں حال ہی میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے گزشتہ ماہ 25 مئی کو اس وقت شروع ہوئے جب امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینیا پولس میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت ہوئی۔

جارچ فلائیڈ کی ہلاکت پولیس کی جانب سے گرفتاری کے وقت اس وقت ہوئی جب ایک سیاہ فام پولیس اہلکار نے 9 منٹوں تک اس کے گلے کو اپنے گھٹنے تلے دبائے رکھا۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد مذکورہ پولیس اہلکار سمیت 4 پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا اور ان پر قتل کی فرد جرم بھی عائد کی گئی جب کہ سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں