امریکا: پولیس کے ہاتھوں ایک اور سیاہ فام شخص کا قتل، تشدد میں مزید اضافہ

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
اٹلانٹا میں جمعے کی رات کو 27 سالہ ریشارڈ بروکس کو ریسٹورانٹ کے ڈرائیو تھرو میں پولیس نے گولی ماردی تھی۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
اٹلانٹا میں جمعے کی رات کو 27 سالہ ریشارڈ بروکس کو ریسٹورانٹ کے ڈرائیو تھرو میں پولیس نے گولی ماردی تھی۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

واشنگٹن: نیشنل ایسوسی ایشن برائے ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل (این اے اے سی پی) نے پولیس کی فائرنگ سے ایک اور افریقی نژاد امریکی شخص کی ہلاکت کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ ’ہم بہت مر چکے ہیں‘۔

واضح رہے کہ 27 سالہ ریشارڈ بروکس کو جمعے کی رات کو جارجیہ کے شہر اٹلانٹا میں وینڈی ریسٹورانٹ کے ڈرائیو تھرو میں پولیس نے گولی ماردی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں شہری حقوق کے لیے سب سے بڑی تنظیم این اے اے سی پی نے عوام سے نسل پرستی کے خلاف ان کی مہم میں شمولیت اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں اس ملک میں جینے کا پورا حق نہیں‘۔

شہری حقوق کے رضاکار امریکا میں اقلیت بالخصوص افریقی نژاد امریکی برادری کے ساتھ سماجی برتاؤ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لندن میں مظاہرے: پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد 100 سے زائد مظاہرین گرفتار

اس تحریک کو تقویت اس وقت ملی جب گزشتہ ماہ ایک پولیس اہلکار نے منی ایپلس میں جارج فلوئیڈ نامی ایک شخص کا گلا دبا کر اسے ہلاک کردیا تھا جبکہ یہ واقعہ درجنوں افراد دیکھ رہے تھے اور انہوں نے اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔

پولیس کی اس بربریت نے امریکا کو حیرت زدہ کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے جب کہ سب سے زیادہ منی ایپلس اور ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرے ہوئے۔

جارج فلوئیڈ کے افریقی نژاد امریکی ہونے کے باوجود ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں سفید فام امریکیوں نے بھی شرکت کی۔

امن کی اپیلوں اور کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشے نے اس ہفتے کے آخر تک کشیدگی کو کم کردیا تھا تاہم ریشارڈ بروکس کی ہلاکت نے اس آگ کو دوبارہ بھڑکا دیا۔

اس رد عمل کی شروعات ایک ویڈیو سے ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ بروکس گرفتاری کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور پھر ایک ٹیزر چھیننے کے بعد دو پولیس افسران سے بھاگتا ہے۔

ایک افسر نے اس کا پیچھا کیا اور گرفتار کرنے کے لیے ملزم کو جھٹکا دینے کے لیے استعمال ہونے والے اس آلے کو بند کرنے کے بعد افسر نے اس پر متعدد گولیاں برسائیں۔

ہفتے کے روز بڑی تعداد میں عوام ریسٹورانٹ کے سامنے اکٹھی ہوئی اور اسے آگ لگا دی اور ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار مظاہرین نے اسے جلتا ہوا دیکھا۔

اس کے بعد مظاہرین قریبی شاہراہ کی جانب بڑھے اور ٹریفک کو روک دیا۔

انہوں نے انسانی زنجیر بنائی اور جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد معروف ہونے والے نعرے بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی زندگی کی اہمیت ہے) اور آئی کینٹ بریتھ (میں سانس نہیں لے سکتا) کے نعرے لگائے۔

آئی کینٹ بریتھ جارج فلائیڈ اور اور ایک اور افریقی نژاد امریکی ایرک گارنر کے آخری الفاظ تھے جو جولائی 2014 میں اسٹیٹن آئی لینڈ نیو یارک میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوگئے تھے۔

انھوں نے مرنے سے قبل ان الفاظ کو 11 بار دہرایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے ہونے والی جنگ کی داستان

یہ الفاظ اب نسل پرستی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر پکار بن چکے ہیں اور پوری دنیا کے لوگ امریکا میں مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔

اٹلانٹا میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے متعدد کوششیں کیں اور درجنوں گرفتاریاں کیں تاہم یہ مظاہرہ اتوار کی صبح تک جاری رہا۔

بعد ازاں ایک چھوٹا سا گروپ ابھر کر سامنے آیا اور اس نے دوبارہ ریسٹورانٹ کو آگ لگا دی جبکہ دیگر قریبی مختلف علاقوں پھیل گئے۔

اٹلانٹا پولیس ڈپارٹمنٹ نے ریشارڈ بروکس کو گولی مارنے والے افسر گریٹ رولف کو برطرف کردیا اور اس کے ساتھی ڈیون برونسن کو انتظامی ڈیوٹی پر لگا دیا۔

اٹلانٹا کے میئر کیشا لانس باٹمز نے اعلان کیا کہ پولیس چیف ایریکا شیلڈز نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ مہلک فورس کا جائز استعمال تھا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں