پشاور ہائیکورٹ کا فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 مجرمان کو رہا کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 16 جون 2020
عدالت نے  وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے اور دیگر 104 مجرمان کے ریکارڈز پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ 
 — فائل فوٹو: اے پی پی
عدالت نے وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے اور دیگر 104 مجرمان کے ریکارڈز پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ — فائل فوٹو: اے پی پی

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 196 کے قریب مجرمان کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور جسٹس نعیم انور کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف 300 سے زائد درخواستوں پر سماعت کی۔

جس کے بعد عدالت نے ان سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا جن سے متعلق ریکارڈز عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔

بعد ازاں مختصر فیصلے میں عدالتی بینچ نے 196 مجرمان کی رہائی کا حکم دے دیا اور وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے اور دیگر 104 مجرمان کے ریکارڈز پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 230 مجرموں کی درخواستوں پر تحریری دلائل طلب

سماعت کے دوران مجرمان کی جانب سے شبیر حسین گگیانی، عارف خان، ضیا الرحمٰن، باری عمران خان بطور وکیل پیش ہوئے۔

وکلا نے ڈان نیوز کو بتایا کہ عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ قیدیوں کے 300 سے زائد کیسز کی سماعت کی جس میں سزائے موت، عمر قید اور 10 برس قید کی سزائیں شامل تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے 200 کے قریب اپیلوں کو منظور کیا اور سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے قیدیوں کی غیرقانونی گرفتاری، 5 سے 10 سال کی طویل غیرقانونی گرفتاری کے بعد اعترافی بیانات کی ریکارڈنگ، اعتراف جرم کے بعد گرفتاری، فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کی عدم موجودگی، غیرمنصفانہ ٹرائل، قانون کی بدنامی، شواہد کی عدم موجودگی، آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے آرٹیکلز 4، 8، 10، 10 اے، 12، 13 اور 25 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر رہائی کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کو فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ افراد کے کیسز میں حکم دینے سے روک دیا گیا

عدالتی بینچ نے کہا کہ اس سے قبل فوجی عدالتوں کے مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف کی جانب سے تسلیم کیا گیا تھا جسے وہاں پیش کیا گیا تھا اور ریاست پاکستان نے اس فیصلے پر انحصار بھی کیا تھا۔

تاہم ریکارڈ کی عدم دستیابی کے باعث 100 سے زائد دیگر اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

اس سے قبل رواں برس فروری میں پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرمان کے وکیل، وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کو سزاؤں کے خلاف 230 کے قریب درخواستوں پر 20 فروری تک تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

خیال رہے کہ عدالت نے مجرموں کی پھانسی کے خلاف حکم امتناع جاری کرکے انہیں عبوری ریلیف فراہم کر رکھا تھا۔

گزشتہ برس نومبر میں عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے ان درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی اپیل مسترد کردی تھی۔

گزشتہ برس 18 اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ہائی کورٹ بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرمان کی جانب سے دائر کی گئی دیگر 75 درخواستوں کو منظور کرلیا تھا اور ان کی سزاؤں سمیت اکثر کی سزائے موت کو روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزائے موت معطل

تاہم سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں پر اس فیصلے کو معطل کردیا تھا جبکہ اس حوالے سے حکومت کی مرکزی اپیلیں تاحال عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ التوا ہیں۔

ان مقدمات میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سزائیں شواہد کے بجائے بدنیتی پر مبنی حقائق میں مشتمل تھیں۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے تمام مجرموں کے اعترافی بیانات میں موجود خامیوں پر بحث کے بعد انہیں مسترد کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی، جبکہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں