برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے حال ہی میں ایک خبر شائع کی جس کے مطابق جارج فلائڈ کی تعزیاتی دعائیہ تقریب کے موقعے پر ان کے وکیل نے کہا کہ جارج فلائڈ کی موت نسل پرستی کی عالمی وبا کا نتیجہ ہے۔ امریکی شہر منیپولس میں ایک سفید فام پولیس اہلکار نے فلائڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر ان کی جان لی تھی، کہا جاتا ہے کہ گردن پر گھٹنا رکھنے کی یہ تکنیک اسرائیلی پولیس اہلکاروں کی ایجاد ہے۔

فلائڈ کی موت کے بعد سے دنیا بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جن کا ضمیر زندہ ہے اور جنہیں دیگر افراد کا احساس ہے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ کتنے لوگوں کو متحرک کیا جاسکتا ہے اور انہیں کتنا احساس ہے۔ کیا ان کی تعداد اتنی ہے کہ جو مطلوبہ سماجی تبدیلی کی راہ ہموار کرسکے؟ قانون میں تبدیلی سے مدد ملتی ہے لیکن اسے ایک ابتدا کے طور پر بہتر عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مشکل کام ہے تو وہ رویوں اور ذہنیت کی تبدیلی ہے جس کے بغیر معاشرہ تعصب اور ظالمانہ نفسیات سے چھٹکارہ نہیں پاسکتا۔

8 سالہ 'گھریلو ملازمہ' زہرہ شاہ کا ہولناک کیس ہی لیجیے جسے گھر کے مالک کے چند مہنگے پرندے آزاد کرنے پر تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔جب میں نے اس معصوم بچی پر ڈھائے گئے ظلم کی تفصیلات پڑھیں تب میرا دل خون کے آنسو رویا۔ مگر زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے انسان سوز واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2 برس قبل ہی میں نے زینب کو لکھے اپنے خط میں اس کی زندگی بچانے میں اپنی ناکامی پر معافی مانگی تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ 'تمہیں اذیت پہنچانے والی اکیلی میں نہیں ہوں مگر پھر بھی میں خود کو گناہ گار سمجھتی ہوں کیونکہ میں ایک ایسے محفوظ ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہی جس کی ہر بچے کو ضرورت ہے۔'

اور اب زہرہ پر ہوا ظلم سننے کو مل رہا ہے۔ شرم کی بات ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے عوام اس قدر بے حس ہوچکی ہے کہ جب زہرہ کی موت جیسا ہولناک جرم ہوتا ہے تو ایک گہری خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ جی ہاں خاموشی۔ فروری 1978ء کی سردیوں میں کراچی والوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اس کے مقابلے میں یہ خاموشی ہی ہے۔ اس روز پورا کراچی 8 سالہ ترنم عزیز نامی بچی کے لیے سڑکوں پر تھا۔ اسے اغوا، ریپ اور قتل کیا گیا تھا۔ پورا شہر رک گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت ملک میں مارشل لا نافذ تھا۔ نہ تو کوئی وومین ایکشن فورم تھا اور نہ ہی ایم کیو ایم تھی، نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی طلبہ تنظیمیں تھیں۔ عوامی رد عمل اس قدر شدت کے ساتھ بڑھکا تھا کہ خود جنرل ضیا الحق کو رات کی خاموشی میں اس بحران کو سنبھالنے کے لیے کراچی آنا پڑا۔

ہم زوال پذیری کا شکار ہیں اور آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ طبقاتی امتیاز کی عالمی وبا ہے۔ سیاست، شدید مذہبیت اور فوجی قبضے عوامی کے اجتماعی ضمیر کو مار چکے ہیں۔ جارج فلائڈ کے واقعے کے بعد ہمیں امریکا میں افریقی امریکیوں کی جدوجہد کی یاد تازہ کرنی چاہیے۔ اس میں شہری حقوق کی وہ تحریک بھی شامل ہے جس نے سیاہ فام افراد کو مارٹن لوتھر کنگ اور مکولم ایکس جیسے ان ذی شعور رہنماؤں کی قیادت میں یکجا کیا جنہوں نے نسلی مساوات کے لیے راہ ہموار کی۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ انہیں بااختیار بنایا جاسکے۔ سیاہ فام امریکی ایک دن جیتیں گے۔ بارک اوباما کا بطور صدر منتخب ہونا نسلی مساوات کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسی کوئی تاریخی تحریک نہیں پائی جاتی جس کا حوالہ دیا جاسکے۔ اگر کچھ بتانے کو ہے تو صرف یہ بات ہے کہ 5 دہائیوں پہلے ہمارا معاشرہ اس قدر طبق دار نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں محرومیوں کے شکار افراد کے بچوں کی زندگیاں بے رحم اور مجرمانہ ذہنیت والے جابروں کے ہاتھوں مختصر ہوجاتی ہیں اور اگر یہ بچ بھی جائیں تو بھی ریپ کرنے والوں، اغواکاروں، قاتلوں اور اسمگلنگ کرنے والوں کے خطرات کے سائے میں پلتی ہیں، ان ظالم مالکان یا بے رحم اساتذہ کی لاپرواہی ان سے اکثر ان کا بچپن چھین لیتی ہے جو اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ بچوں سے مشقت کروانے اور پڑھانے کے سخت طریقوں کو سماجی طور پر قابل قبول عمل تصور کیا جاتا ہے۔

جی بالکل یہ توقع ہے کہ حکومت حرکت میں آئے گی کیونکہ انسانی زندگی کو تحفظ دینے کی اولین ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ جی ہاں زہرہ کے کیس نے کئی افراد کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ رد عمل کی صورت میں قانون میں تبدیلی (جس پر عمل بھی ہو رہا ہے) اور آگاہی بڑھانے اور حکومت پر دباؤ بنائے رکھنے کے ساتھ عدالتی عمل کے ذریعے نظام موجود خامیوں کو دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن لوگوں کو انصاف دلوانے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہنے والی بیلا رضا جمیل کہتی ہیں کہ ان قوانین پر کبھی عمل درآمد ہی نہیں ہوتا۔

پاکستان میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے گھناؤنے جرائم کو خلاف قانون تو قرار دیا گیا ہے لیکن پھر بھی ان واقعات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کیونکہ متاثرین کا تعلق غیر مراعات یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ بااختیار نہیں ہے۔ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور عدالتی سطح پر اس طبقے کے ساتھ صریح امتیاز برتا جاتا ہے۔ کسی بڑے سانحے کے بعد ہی ان کے حق میں چند ایک آوازیں بُلند ہوتی ہیں۔

کیا یہ طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا صحیح وقت نہیں ہے؟ قوانین پر کام ضرور کیجیے لیکن اس طبقے کوببھی اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھیے جس سے متاثرین تعلق رکھتے ہیں۔ اگر مراعات یافتہ طبقے کو آگاہی کی ضرورت ہے تو دوسری طرف غیر مراعات یافتہ طبقے کو ایک ایسے مرہم کی ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ ان زخموں سے چھٹکارہ پاسکیں جو انہیں طبقاتی امتیاز کے باعث پہنچے ہیں۔

دن بھر کام کرکے اپنی بیٹیوں کو کھلانے اور پڑھانے کے اخراجات پورے کرنے والی ایک غریب خاتون سے جب زہرہ کے سانحے کا ذکر کیا تو جانتے ہیں کہ ان کا رد عمل کیا تھا؟ 'یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔' یہ الفاظ بے حسی نہیں بلکہ مایوسی اور لاچارگی کو ظاہر کرتے ہیں۔


یہ مضمون 19 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں