کراچی: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر قیادت کے باہمی اختلافات پارٹی کے اصلاحی ایجنڈے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اس بات کا اعتراف وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فود چوہدری نے وائس آف امریکا کو ایک انٹریو دیتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پانامہ کے کیس کے بعد عمران خان کے ساتھ نتھیا گلی میں کافی وقت گزارا اور کئی امور کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کراچی میں وزیراعلیٰ کو ڈکٹیٹر کہنے کا حوالہ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ قومی مالیاتی کمیشن(این ایف سی) اور عدالتی، پولیس اصلاحات پر وزیراعظم کے آئیڈیاز بہت واضح تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو حکومت نے بہت زیادہ توقعات ہیں اور عمران خان کو لوگوں نے نظام کی اصلاح کے لیے منتخب کیا لیکن ہماری اپنی بھی کوتاہیاں ہیں جس کی وجہ سے تبدیلی نہیں آسکی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ صرف آئیڈیا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے ایک ٹیم بھی بنانی پڑتی ہے اور جب عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی تو نئے لوگ ان آئیڈیاز سے مطابقت نہیں رکھتے تھے اور شاید صلاحیت بھی نہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میرے تجزیے کے مطابق حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی آپس کی رسہ کشی کی وجہ سے سیاسی لوگ کھیل سے باہر ہوگئے اور اس سے پیدا ہونے والے خلا کو نئے لوگوں نے پر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹیم بھی لیڈر نے ہی منتخب کرنی ہوتی ہے اور میں بھی بہت حیران ہوں کہ یہ کیوں نہیں کرسکے ان سے چاہے جو اختلاف ہو لیکن مسلم دنیا میں ان کی سطح کا کوئی رہنما نہیں ہے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ کہا جاتا ہے فوج کا بہت کردار ہوگیا ہے لیکن آپ پارلیمانی اور صوبائی قیادت کو دیکھیں اور خود بتائیں کہ اس قیادت کے ساتھ سویلین سپرمیسی کس طرح ہو؟

انہوں نے کہا کہ عمران کو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے لیکن جس نے بھی ان کو یہ مشورہ دیا کہ کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے افراد کو عہدے دیے جائیں اس سے ان کی ذات کو سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بہت کوشش کی اور سمجھانے کی بھی کوشش لیکن بات نہیں بنی جب اسد عمر وزیر خزانہ تھے تو جہانگیر ترین نے زور لگا کر انہیں وزارت سے فارغ کروایا پھر اسد عمر نے دوبارہ آنے کے بعد کوششیں کر کے جہانگیر ترین کو فارغ کروادیا۔

اسی طرح شاہ محمود قریشی کی بھی جہانگیر ترین سے ملاقاتیں ہوئی لیکن بات نہیں بنی، انہوں نے کہا کہ پارٹیوں میں اختلافات، گروہ بندی عام بات لیکن آپ جس شاخ پر بیٹھے ہوں اس کو تو نہیں کاٹا جاتا۔

اس لیے مجھے محسوس ہوتا کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں اندرونی اختلافات نےنہ صرف پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا بلکہ ’پوری سیاسی کلاس آؤٹ ہوگئی‘ اور ان کی جگہ بیوروکریٹس نے لے لی۔

وزیر سائنس نے کہا حکومت کو 2 سال ہوگئے ہیں لیکن ہم ابھی تک دھرنے میں شریک نوجوانوں کے اوپر بننے والے مقدمات ختم نہیں کرسکے، اسی طرح پولیس، عدالتی اصلاحات پر تمام بنیادی چیزیں رکی ہوئی ہیں اور ہم صرف ایک معمول کے مطابق حکومت چلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار سیاست اور حکومت پر چلتا ہے اور اگر یہ متوازن نہ ہوں تو کسی بھی وقت چیزیں سرک جاتی ہیں، عمران خان کو اس کا احساس ہے اس لیے انہوں نے کابینہ کے آخری اجلاس میں وزرا سے کہا کہ آ پ کے پاس کارکردگی دکھانے کے لیے ساڑھے 5 ماہ ہیں اس کے بعد وقت آپ کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوجائے گا۔

کیا ہم صدارتی نظام حکومت کی جانب چلے گئے ہیں کہ جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ اگر اتنے مشیر، معاون خصوصی ہوں گے اور منتخب اراکین ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جائے گا تو ظاہر پارلیمانی نظام حکومت پر سوال کھڑا ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی ناکامی صرف فرد واحد کی ناکامی نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کے عوام کی خواہشوں کی ناکامی ہے فوج اور دیگر ادارے بھی عمران خان کو اس لیے سپورٹ کررہے ہیں کہ اس وقت سیاسی آپشنز ہی نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں