کراچی طیارہ حادثہ: پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، وزیر ہوا بازی

اپ ڈیٹ 25 جون 2020
غلام سرور خان کے مطابق رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر طیارہ  7220 فٹ کی بلندی  پر تھا—فوٹو:ڈان نیوز
غلام سرور خان کے مطابق رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر طیارہ 7220 فٹ کی بلندی پر تھا—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ ہونے کے باعث ہمیں سانحے سے گزرنا پڑا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں کراچی طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لیے 100 فیصد ٹھیک تھا اس میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی ایئرپورٹ کے قریب پی آئی اے کا مسافر طیارہ آبادی پر گر کر تباہ،97 افراد جاں بحق

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پروازیں معطل تھیں اور 7 مئی کو اس طیارے نے پہلی فلائٹ لی اور 22 مئی کو حادثے کا شکار ہوا، اس دوران 6مرتبہ کامیاب پروازیں مکمل کی تھیں جن میں 5پروازیں لاہور سے کراچی اور کراچی سے لاہور واپسی کے لیے تھیں اور ایک شارجہ کے لیے تھی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ دونوں پائلٹس، کیپٹن اور معاون پائلٹ تجربہ کار تھے اور طبی طور پر جہاز اڑانے کے لیے فٹ بھی تھے۔

غلام سرور خان نے کہا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے فائنل اپروج پر کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی تھی جب وہ لینڈنگ پوزیشن میں آیا تب بھی کسی خرابی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔

'طیارے کی بلندی زیادہ تھی'

عبوری رپورٹ جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر طیارے کو تقریباً 2 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا جبکہ ابتدائی تحقیقات اور ریکارڈ کے مطابق جہاز اس وقت 7 ہزار 220 فٹ کی بلندی پر تھا یہ پہلی بے قاعدگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وائس ریکارڈڈ ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر (اے ٹی سی) نے 3 مرتبہ پائلٹ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اس کی اونچائی ابھی بھی زیادہ ہے اور پائلٹ سے کہا گیا کہ لینڈنگ پوزیشن نہ لیں بلکہ ایک چکر اور لگا کر آئیں لیکن پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظرانداز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ہوا اس کا احتساب ہوگا، سربراہ پی آئی اے

غلام سرور خان نے کہا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اور یہ ڈیٹا اینٹری ریکارڈر میں بھی موجود ہے کہ رن وے سے 10 ناٹیکل مائلز کے فاصلے پر طیارے کے لینڈنگ گیئرز کھولے گئے لیکن ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب جہاز 5 ناٹیکل مائلز پر پہنچا تو لینڈنگ گیئرز واپس اوپر کرلیے گئے۔

'طیارے کا انجن 3 مرتبہ رن وے سے ٹکرایا'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاز کو رن وے پر لچکدار پوزیشن دی جاتی ہے کہ 1500 سے 3000 فٹ پر لینڈ کرسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ رن وے کی لمبائی 1100 فٹ ہوتی ہے اور اصولاً طیارے کو 1500 سے 3000 فٹ پر ٹچ ڈاؤن کرنا چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ لینڈنگ گیئرز کے بغیر حادثے کا شکار طیارے نے 4500 فٹ پر انجن پر 3 مرتبہ ٹچ ڈاؤن کیا اور 3 ہزار سے 4 ہزار فٹ تک رن وے پر رگڑ کھاتا رہا جس میں انجن کو کافی حد تک نقصان پہنچا، اسی دوران پائلٹ نے دوبارہ جہاز کو اڑالیا جبکہ انہیں کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں نہ پائلٹ نے کوئی ہدایات لی تھیں جس میں دونوں جانب سے کوتاہی تھی۔

غلام سرور خان نے کہا کہ اس میں اے ٹی سی کی بھی کوتاہی ہے کہ جب انہوں نے طیارے کو انجن پر ٹچ ڈاؤن کرتے دیکھا اور آگ نکلتے دیکھی تو انہیں بھی آگاہ کرنا چاہیے تھا لیکن کنٹرول ٹاور نے پائلٹ کو بھی آگاہ نہیں کیا اور پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ ٹیک آف کرلیا۔

مزید پڑھیں: 'تباہ شدہ طیارے کا آخری معائنہ 21 مارچ کو ہوا، ایک روز قبل مسقط سے آیا تھا'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاز نے جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو دونوں انجنز کو نقصان پہنچ چکا تھا پھر پائلٹ نے دوبارہ لینڈنگ کے لیے رسائی کی اجازت چاہی لیکن بدقسمتی سے جو اپروچ اور اونچائی انہیں بتائی گئی وہ اس تک نہیں پہنچ سکے اور وہ جہاز بدقسمتی سے شہری آبادی پر گرگیا۔

انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثے میں جن لوگوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں وہ جہاز گرنے اور اس میں آگ لگنے کے باعث ہوئیں۔

غلام سرور خان نے کہا کہ حادثے میں بچنے والے 2 خوش قسمت افراد سے بھی میری ملاقات ہوئی اور بچنے والے ایک مسافر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب اس کی کرسی کسی مکان کی چھت پر گری، وہ پہلے مکان کی تیسری منزل پر گرے گیند کی طرح اچھلے دوسری منزل پر آئے اور اسی طرح پہلی منزل پر آئے لیکن وہ سیٹ بیلٹ کے ساتھ بیٹھے رہے اور پہلی منزل پر انہیں ریسکیو کیا گیا وہ معمولی زخمی تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیر ہوا بازی نے کہا کہ جن لوگوں نے اس مسافر کو ریسکیو کیا ان کے مطابق مسافر نے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ میری ماں سے بات کروائیں، اس مسافر نے سب سے پہلی کال اپنی والدہ کو کی اور پورا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کی دعاؤں نے مجھے زندگی دی۔

'پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر نے مروجہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا'

وفاقی وزیر نے کہا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا، ایک طرف پائلٹ نے اے ٹی سی کی ہدایات کو نظرانداز کیا اور دوسری طرف کنٹرولر نے بھی جہاز کے انجن کے رگڑ کھانے کے بعد نقصان سے آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے دکھ بھی ہورہا ہے کہ میں نے وائس ریکارڈر سے ساری بات چیت خاص طور پر آخری آدھے گھنٹے کی بات سنی اور کاک پٹ پر جانے کے بعد پائلٹ نے 3 مرتبہ اللہ کا نام لیا لیکن بدقسمتی سے پائلٹ اور معاون پائلٹ کی ساری بات چیت کورونا پر تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ: فی مسافر 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے، وزیرہوا بازی

وزیر ہوا بازی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پائلٹ اور کو پائلٹ کی توجہ مرکوز نہیں تھی، ان کے ذہن پر کورونا سوار تھا ان کا خاندان متاثر تھا اور وہ کورونا پر بات چیت کررہے تھے، جب طیارہ لینڈنگ پوزیشن پر آیا تو کنٹرول ٹاور نے کہا کہ آپ زیادہ اونچائی پر ہیں نیچے آئیں تو پائلٹ نے بہت جلدی میں کال سنی اور کہا میں سنبھال لوں گا اور پھر کورونا پر بات شروع کردی۔

'ضرورت سے زیادہ اعتماد کے باعث سانحے سے گزرنا پڑا'

غلام سرور خان نے کہا کہ بدقسمتی سے پائلٹ کو بہت زیادہ اعتماد تھا، ان کی توجہ نہیں تھی اور یہ بات بتاتے ہوئے انتہائی افسوس ہورہا ہے کہ جہاز مکمل طور پر ٹھیک تھا اور آٹو لینڈنگ(autolanding) پر تھا جس سے پائلٹ نے ڈس انگجیج کیا، اسے مینوئل (manual) پر لائے، 30 ڈگری پر آنا تھا 60 ڈگری پر ڈائیو (dive) لگائی اور یہ واقعہ پیش آیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پائلٹ انتہائی تجربہ کار تھا لیکن زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ پائلٹ اور کو پائلٹ کے ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ نہ ہونے کے باعث ہمیں اتنے بڑے سانحے سے گزرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ تحقیقات: فرانسیسی ٹیم نے اپنا کام مکمل کرلیا

انہوں نے کہا کہ واقعے کی عبوری رپورٹ کے مطابق حادثے کی ذمہ داری کریو کیبن اور اے ٹی سی کی بھی بنتی ہے، جو دنیا سے چلے گئے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے لیکن جو حیات ہیں اور ذمہ دار ہیں وہ حساب کتاب سے بچ نہیں پائیں گے ان کے خلاف قانون کے مطابق قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

وزیر ہوا بازی نے کہا کہ طیارہ حادثے کی مکمل رپورٹ ایک سال کے اندر جاری کی جائے گی۔

دیگر فضائی حادثات کی رپورٹس

اس کے علاوہ جو ماضی قریب میں حادثات ہوئے 2010 میں ایئر بلیو کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرایا، جس کے بعد اسلام آباد ہی میں بھوجا ایئرلائن کا طیارہ 20 اپریل 2012 کو حادثے کا شکار ہوا، تیسرا بدقسمت واقعہ اے ٹی آر کی پرواز پی کے 605 کا ہوا جو حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوئی اور گلگت میں اس طرح کی کریش لینڈنگ گلگت میں ہوئی لیکن تمام مسافر محفوظ رہے تھے وہ انکوائری بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے ٹی آر کی پرواز پی کے 605 میں تکنیکی خرابی تھی جو انتہائی پیچیدہ نوعیت کی تھی اور انجن بنانے والی کمپنی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی لیکن ہمارا وعدہ ہے کہ اگست تک اس کی انکوائری رپورٹ پیش کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: تحقیقاتی ٹیم میں ماہرینِ طب، نفسیات کی شمولیت کا فیصلہ

ایئر بلیو کے حادثے کی انکوائری رپورٹ کا نتیجہ بتاتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ ایئر بلیو کا حادثہ عملے کے فیصلے کی غلطی، پیشہ وارانہ مہارت کی کمی، مروجہ طریقہ کار اور پرواز کے اصولوں کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری کے مطابق بھوجا ایئر کو موسم کی خراب صورتحال کا سامنا ہوا تھا، عملے نے غلط فیصلے کیے اور مروجہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کی، عملے کے پاس خودکار فلائٹ کا تجربہ نہیں تھا اور قابلیت کی بھی کمی تھی جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔

غلام سرور نے کہا کہ اسلام آباد کے گرد و نواح میں ہونے والے ان دونوں حادثات میں عملے کی خامیاں اور بدانتظامی تھی اور یہ پائلٹس کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئے۔

'30 فیصد پائلٹس کے لائسنسز جعلی ہیں'

انہوں نے کہا کہ اسی بنیاد پر ہم نے پائلٹس کے بار ے میں جاننا چاہا کہ دنیا میں اور بھی ایئرلائنز ہیں، جیسا کہ ترکش ایئرلائن ،ایمریٹس ایئرلائن ان کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا، لینڈنگ کے دوران ایمریٹس ایئرلائن کا ایک حادثہ ہوا تھا جس میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔

وزیر ہوا بازی نے کہا کہ اس حوالے سے ہم نے پائلٹس کا بھی جائزہ لیا لیکن بہت دکھ کے ساتھ یہ بات بتانی پڑتی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے بھی ازخود نوٹس لیا تھا جس میں انہوں نے حکم دیا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی ڈگریوں کی جانچ کروائی جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پی آئی کے ملازمین میں ان کی انتظامیہ، پائلٹس، گراؤنڈ ہینڈلر، تکنیکی عملہ اور بہت سارے لوگوں بشمول 4 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی نکلیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں تباہ ہونے والے طیارے کا کاک پٹ وائس ریکارڈر مل گیا

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں، سرکاری اہلکاروں اور ہمارے اداروں میں بھی میرٹ کو نہیں دیکھا جاتا۔

وزیر ہوا بازی نے کہا کہ لائسنسز کے حوالے سے ایک بات میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ 90 فیصد سے زائد ڈرائیونگ لائسنسز بغیر کسی امتحان کے پیسے دے کر مل جاتے ہیں، 50سالہ عملی زندگی میں نے کسی ٹریفک حادثے میں کسی ڈرائیور کو سزا ہوتے نہیں سنا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایک پائلٹ جو کئی سو انسانی جانوں کولے کر پرواز کرتا ہے، وہ کوالیفائیڈ نہیں، اسے سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا جاتا ہے اور اس کا لائسنس بھی جعلی ہے یہ کتنے دکھ کی بات ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر 860 فعال پائلٹس ہیں جن میں پی آئی اے، ایئر بلیو، سابق شاہین ایئرلائن، چارٹر پرائیویٹ کلبس کے پائلٹ شامل ہیں۔

غلام سرور خان نے کہا کہ اس حوالے سے گریڈ 22 کے افسر کے ذریعے انکوائری کروائی گئی جس کے مطابق 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کی طیارہ حادثہ انکوائری رپورٹ 25 جون کو جمع کرانے کی ہدایت

وفاقی وزیر نے کہا کہ اداروں کو سیاست زدہ کیا گیا، میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو بھرتی کیا گیا لیکن آنکھیں بند کرکے جعلی ڈگریاں اور لائسنس بنوائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں کہ 860 میں سے 262 یعنی تقریباً 30 فیصد پائلٹس ایسے ہیں جن کے لائسنسز جعلی ہیں جنہوں نے خود امتحان نہیں دیا ان کافلائنگ کا تجربہ ہی نہیں۔

وزیر ہوا بازی نے اس حوالے سے کارروائی شروع کردی گئی ہے اور پہلے مرحلے میں 54 میں سے 28 لوگوں کو شوکاز نوٹس دیے وہ عدالت بھی گئے لیکن ان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، 18 پیش ہوئے اور 9 نے اعتراف بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سیاست نہیں ہوگی عدالت کو حقائق سے آگاہ کیا جائے گا اور میری درخواست ہے کہ اس مسئلے کو سیاست زدہ نہیں ہونا چاہیے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور انکوائری آزاد، شفاف اور منصفانہ ہے لہذا بلاتفریق تمام افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔

غلام سرور خان نے وزیراعظم نے پی آئی اے کے حوالے سے بہت اجلاس کیے ہم نے اس کی نجکاری نہیں کرنی بلکہ اسے ری اسٹرکچر کرنا ہے۔

کراچی طیارہ حادثہ

خیال رہے کہ22 مئی کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب ماڈل کالونی میں پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 2 افراد محفوظ رہے۔

بعدازاں اسی روز وفاقی حکومت نے طیارہ حادثہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، ٹیم کی سربراہی ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) کے صدر ایئر کموڈور محمد عثمان غنی نے کی۔

علاوہ ازیں پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن(پالپا ) نے بین الاقوامی اداروں اور اپنی شمولیت سے پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

پالپا نے طیارے کی حالت سے متعلق تکنیکی تحقیقات کی تجویز بھی دی تھی اور کہا تھا کہ تفتیش کاروں کو گراؤنڈ اسٹاف اور عملے کے کام کرنے کے حالات پر لازمی غور کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: ورثا کو فی کس 50 لاکھ روپے ملیں گے، ترجمان پی آئی اے

بعدازاں پی آئی اے کے انجینئرنگ اینڈ مینٹیننس ڈپارٹمنٹ نے حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے ایئربس اے-320 کے تکینکی معلومات سے متعلق سمری جاری کردی ہے جس کے مطابق یارے کو رواں سال 21 مارچ کو آخری مرتبہ چیک کیا گیا تھا اور تباہ ہونے والے طیارے نے حادثے سے ایک دن قبل اڑان بھری تھی اور مسقط میں پھنسے پاکستانیوں کو لاہور واپس لایا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ طیارے کے انجن، لینڈنگ گیئر یا ایئر کرافٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی، دونوں انجنز کی حالت اطمینان بخش تھی اور وقفے سے قبل ان کی مینٹیننس چیک کی گئی تھی۔

علاوہ ازیں وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے طیارہ حادثے پر تمام متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں وزیر یا چیف ایگزیکٹو کی کوتاہی سامنے آئی تو خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے۔

ان کے علاوہ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر(سی ای او) ارشد ملک نے کہا تھا کہ مسافر طیارے کے حادثے میں مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ثابت ہوا اس کا احتساب ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے مسافر کی روداد

تاہم حادثے کے دن ہی بدقسمت طیارے کا فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ (ایف ڈی آر) مل گیا تھا اور 28مئی کو طیارے کا کاک پٹ ڈیٹا ریکارڈر (سی وی آر) بھی مل گیا تھا۔

علاوہ ازیں پی کے-8303 کو پیش آئے حادثے سے متعلق تحقیقات کے لیے ایئربس کی جانب سےفرانسیسی ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی گئی تو اپنا کام مکمل کرنے کے بعد یکم جون کوروانہ ہوگئی تھی۔

مزید برآں 30 مئی کو سندھ ہائی کورٹ نے حکام کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب حادثے کا شکار ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے طیارے کی تحقیقاتی رپورٹ 25 جون تک جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

مسافر طیاروں کے حادثات

خیال رہے کہ گزشتہ سال پی آئی اے کا طیارہ گلگت ایئرپورٹ کے رن وے سے پھسل گیا تھا تاہم کوئی بڑا حادثہ رونما نہیں ہوا تھا۔

مذکورہ حادثے میں مسافر محفوظ رہے تھے تاہم طیارے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

اس سے قبل 7 دسمبر 2016 کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 661چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حویلیاں کے نزدیک حادثے کا شکار ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ہونے والے بدترین فضائی حادثات

حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں 42 مسافروں، عملے کے پانچ ارکان اور ایک گراؤنڈ انجینئر سمیت تمام 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں پاکستان کی نامور شخصیت جنید جمشید بھی شامل تھے۔

2012 میں بھوجا ایئر کا طیارہ بوئنگ 737 کراچی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھر کر تباہ ہوگیاتھا جس میں ہونے 121 مسافر اور عملے کے 6 ارکان جاں بحق ہو گئے تھے۔

جولائی 2010 میں کراچی سے اسلام آباد جانے والا نجی ائیر لائن اییئر بلیو کا طیارہ اے 321 مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں کر تباہ ہوگیا تھا، جس سے 152 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں