اختلافات کے باوجود مسلم لیگ (ق) بجٹ ووٹ میں حکومت کی حمایت کرے گی

اپ ڈیٹ 29 جون 2020
چوہدری برادران نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی بنی گالہ رہائش گاہ میں دیے گئے عشائیہ میں شرکت نہیں کی۔ فائل فوٹو:ڈان
چوہدری برادران نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی بنی گالہ رہائش گاہ میں دیے گئے عشائیہ میں شرکت نہیں کی۔ فائل فوٹو:ڈان

لاہور: حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے درمیان گزشتہ روز اختلافات منظر عام پر آئے جب چوہدری برادران نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی بنی گالہ رہائش گاہ میں دیے گئے عشائیہ میں شرکت نہیں کی۔

تاہم مسلم لیگ (ق) نے وفاقی بجٹ 21--2020 کی منظوری کے لیے ووٹ ڈالنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے ووٹ دینے کا فیصلہ مسلم لیگ (ق) کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے مشترکہ طور پر ظہور الٰہی روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ پر کی۔

مزید پڑھیں: پنجاب اور وفاق میں اتحاد کے مستقبل کے لیے ق لیگ، پی ٹی آئی کی بیٹھک

اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ وزیر اعظم خان کے ’سرد رویے‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پارٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے وزیر اعظم کے عشائیے میں شرکت سے انکار کردیا کیونکہ انہوں نے پارٹی قیادت کو براہ راست دعوت دینے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’اگر ان کا چوہدری برادران پر عدم اعتماد ہے اور اہم قومی معاملات پر وہ ان سے مشاورت نہیں کرتے تو عمران خان سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) وزیر اعظم کی جانب سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ’بہتر رویہ نہ رکھنے‘ پر اپنی گہری تشویش کے باوجود حکومت کی اتحادی رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کو خطرہ ہے؟

انہوں نے کہا کہ ’اس اہم تشویوش کے باوجود اجلاس نے پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری کے لیے ووٹ دینے پر اتفاق کیا‘۔

اجلاس کے شرکا نے وزیر اعظم کے آس پاس ’منافقوں اور مفاد پرستوں‘ کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا جو ان کے بقول عمران خان کو اتحادیوں میں اختلاف پیدا کرنے کے علاوہ غلط مشورے بھی دے رہے تھے۔

رواں سال کے آغاز میں مسلم لیگ (ق) نے خبردار کیا تھا کہ اگر تحریک انصاف نے ان کے ’جائز‘ مطالبات پورے نہ کیے تو وہ تحریک انصاف کے ساتھ اپنے اتحاد پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

مطالبات ان حلقوں میں انتظامیہ کے حصے سے متعلق تھے جہاں مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز منتخب ہوئے تھے اور ان کے وزرا کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ دونوں پارٹیوں کے درمیان 2018 کے انتخابات سے قبل ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا جانا تھا۔

ایک اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’معاہدے کے تحت مسلم لیگ (ق) کو مرکز اور پنجاب میں دو دو وزارتیں دی جانی تھیں، پی ٹی آئی نے ابھی تک اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) نے رکن قومی اسمبلی مونس الہیٰ کا نام وفاقی وزیر کے لیے دیا تھا مگر عمران خان نے اسے مسترد کردیا تھا جس کے نتیجے میں دونوں اتحادیوں کے مابین عدم اعتماد پیدا ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں