طیارہ حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ مسترد کردی

اپ ڈیٹ 30 جون 2020
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران طیارہ حادثے کے متاثرین کے اہلخانہ نے رپورٹ کو مسترد کیا۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران طیارہ حادثے کے متاثرین کے اہلخانہ نے رپورٹ کو مسترد کیا۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

کراچی: 22 مئی کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کو پیش آنے والے سانحے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مسافروں کے غمزدہ رشتہ داروں نے فضائی حادثات کی تفتیشی برانچ (اے اے آئی بی) کی جانب سے جاری کردہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پریس کلب میں ایک باپ، جس نے حادثے میں اپنے تین بچوں اور بیوی کو کھو دیا تھا، ایسی بہنیں، جنہوں نے روشن مستقبل کا خواب رکھنے والے اپنے اکلوتے 27 سالہ بھائی کو اس حادثے میں کھویا، اپنے والد کے اصل باقیات کو تلاش کرنے والا بیٹا، ایک بیوہ عورت ایئربلیو فلائٹ 202 کو پیش آنے والے حادثے کے 10 سال بعد بھی حقائق کی منتظر ہے، نے پریس کانفرنس کی۔

انہوں نے مل کر ابتدائی رپورٹ کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز کی متعدد ریکارڈنگز کے علاوہ کچھ نہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈیٹا کا مزید جائزہ لیا جائے اور بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے جاری کردہ ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انسیڈنٹ انویسٹی گیشن پروسیجر کے تحت مکمل رپورٹ جاری کی جائے۔

مزید پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ: پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، وزیر ہوا بازی

اس حادثے میں اپنی اہلیہ اور تین بچوں کو کھونے والے آصف اقبال فاروقی کا کہنا تھا کہ لوگ ان کی حالت زار اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی حالت زار کا تصور کریں جنہیں اپنے پیاروں کی باقیات تک نہیں دی جارہیں انہیں جھوٹا کہہ کر دفتر سے باہر نکال دیا جاتا ہے، ان کی فریاد اور ان جیسے دیگر افراد کی فریاد کو سنا تک نہیں جارہا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ دانتوں کا ریکارڈ نہیں بلکہ صرف ڈی این اے مکمل جھلسی ہوئی لاشوں کی شناخت کا واحد حل ہے جیسا بدقسمت پی کے 8303 حادثے کے شکار افراد کی لاشوں کے ساتھ تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف ایک ایئر لائن ہی نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہے، اس معاملے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، پائلٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ورکر یونینز، جو جہاز کے فضا میں جانے سے قبل طیارے کے ہر ایک حصے کی جانچ کے ذمہ دار ہیں، ’ان سب میں ایک بڑی تنظیم نو کی ضرورت ہے‘۔

کنول ارسلان، جس نے حادثے میں اپنے اکلوتے بھائی کو کھو دیا تھا، نے ایئر لائن کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر سوال اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) کا عملہ تھا جب فلائٹ اترنے والی تھی تو نماز کے وقفے پر تھا تو ان کے متبادل کہاں تھے؟ یہ کسی ایک شخص کی تو ذمہ داری نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب پائلٹ جہاز کو دوبارہ فضا میں لے جا رہا تھا تو اس کے انجنز میں آگ لگنے کے بارے میں ایئر ٹریفک کنٹرول کو کیوں اطلاع نہیں ملی؟ ہوائی جہاز کے رن وے پر آگ بجھانے والے فون کیوں نہیں تھے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ طیارے کو کچھ مسئلہ ہے تو اس پر انہوں نے کوئی ہنگامی کارروائی کیوں نہیں کی؟

ان کا کہنا تھا کہ حادثے سے قبل ان 17 منٹ کی ناکام لینڈنگ میں ان مسافروں پر کیا بیتی یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بھی سوچیے کہ ہم جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین پر اب کیا گزر رہی ہے۔

لواحیقین نے یہ بھی سوال کیا کہ ایئر پورٹ کے آس پاس کی عمارتیں تین سے چار منزلہ اونچی کیسے ہوئیں؟ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اس کی اجازت کیوں دی؟‘

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: بلیک باکس کی ڈی کوڈنگ، ڈاؤن لوڈنگ کا عمل مکمل

2010 کے ایئربلیو حادثے کے متاثرہ جنید حامد، جنہوں نے ایئربلیو حادثے کے متاثرین کی ایسوسی ایشن تشکیل دی تھی، نے کہا کہ گزشتہ حادثات کے بارے میں پاکستان میں ابتدائی رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد سے کبھی بھی کوئی تفصیلی رپورٹ سامنے نہیں آسکی ہے اور اس ابتدائی رپورٹ کو بھی عوامی دباؤ یا عدالت کے احکامات کی وجہ سے جاری کیا گیا ہے۔

معاوضے کا مسئلہ

پریس کانفرنس میں متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دیے جانے کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا جس کے بارے میں جنید حامد کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی طور پر 10 لاکھ روپے وفاقی حکومت نے دیے ہیں مگر 50 لاکھ روپے ادا کرنا ان کی ذمہ داری ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ الزام تراشی کے بعد انشورنس/معاوضے کو متاثرہ شخص کی پروفائل، جیسے اس کی عمر، تعلیم، پیشہ ورانہ تجربہ، سماجی حیثیت، لواحقین کی تعداد، مستقل میں آگے بڑھنے کے امکانات جیسے عوامل کی بنیاد پر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال پی آئی اے کا نمائندہ وکیل اہل خانہ سے رہائی کے دستاویزات پر دستخط کرانے کے لیے رابطے کر رہا ہے جس پر انہیں دستخط نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پشاور ہائیکورٹ نے واضح طور پر اہلخانہ کو ایسے دستاویزات پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں