پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ متنازع رہے گا، سابق جج سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2020
جسٹس اعجاز احمد 2015 میں ریٹائر ہوگئے تھے—تصویر: اسکرین گریب وائس آف امریکا
جسٹس اعجاز احمد 2015 میں ریٹائر ہوگئے تھے—تصویر: اسکرین گریب وائس آف امریکا

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) اعجاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلے کو 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کی طرح متنازع سمجھتے ہوئے یاد رکھا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائس آف امریکا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے 2015 میں ریٹائر ہوجانے والے جسٹس اعجاز احمد نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر بھی بات کی اور اسے ایک ایسا واقعہ قرار دیا کہ کس طرح ایجنسیز ججز کی تعیناتی میں مداخلت کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2014 میں اسلام آباد کے دھرنے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سن کر سپریم کورٹ کے ججز حیران رہ گئے کیوں کہ اس وقت جسٹس ناصر الملک چیف جسٹس پاکستان تھے اور وہ ’صحیح آدمی‘ تھے تاہم بعد میں یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے بالآخر نواز شریف کو 2018 میں پاناما پیپرز کیس میں برطرف کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

کیا پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ درست تھا کے جواب میں سابق جج نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے بہت سے ایسے فیصلے ہیں جنہیں عوام قبول نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ درست نہیں مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کا کیس۔۔۔۔ اس لیے یہ اسی طرح کا کیس ہے‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس تو ختم کردیا لیکن اپنی طرف سے انہوں نے ان کی اہلیہ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں پیش ہونے کا کہہ دیا ہے اور اس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اور چیف جسٹس اس معاملے کو دیکھیں گے۔

ججز کی تعیناتی کے معاملے میں کس حد تک مداخلت ہوتی ہے کہ جواب میں انہوں نے ایک واقعہ دہرایا کہ جب وہ کچھ ججز تعینات کررہے تھے تو انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ایک جنرل کی ان کے پاس ٹیلی فون کال آئی۔

جسٹس (ر) اعجاز احمد نے بتایا کہ ’کال پر وہ (آئی ایس آئی) جنرل نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ جج رکھ رہے ہیں تو میں نے کہا ہاں، جس پر انہوں نے مجھ سے کسی کو جج بنانے کو کہا‘۔

مزید پڑھیں: فوج کی اعلیٰ قیادت خفیہ اداروں کو لگام دے، جسٹس شوکت صدیقی

سابق جج نے کہا کہ ’میں نے انہیں جواب میں ایک لیفٹیننٹ جنرل بنانے کو کہا جس پر انہوں نے مجھے جواب دیا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا تو میں نے بھی کہا یہ بھی نہیں ہوسکتا‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں کوئی مداخلت نہیں تھی اور جب کسی نے انہیں یہ موقع دیا تو دوسروں نے مداخلت کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور وکیل لطیف کھوسہ نے جسٹس اعجاز احمد کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو متعدد مرتبہ سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔

ججز کی تعیناتی میں خفیہ اداروں کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سے قبل خفیہ ادارے ججز کی تعیناتی میں ساز باز کرسکتے تھے کیوں کہ حکومت جج مقرر کرتے وقت ان کی رپورٹ پر انحصار کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایس آئی سیاسی سیل کام نہیں کرسکتا: چیف جسٹس

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مشیر قانون رہنے والے بیرسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ انصاف کے قدرتی اصولوں کے خلاف ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں حکومت کے سربراہ کو اس انداز میں نا اہل قرار دیا گیا۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو اقامہ پر برطرف کیا لیکن دوسروں کو اسی کیس میں چھوڑ دیا گیا بلکہ ایک وفاقی وزیر کا کیس کئی ماہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔


یہ خبر 3 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں