اسلام آباد: مولانا عبدالعزیز نے پیر کی درمیانی شب سیکٹر ای-7 میں قائم مدرسہ جامعہ فریدیہ کے انتظامی دفتر پر قبضہ کرلیا۔

مولانا عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ ام حسان نے مدرسے کے دفتر پر قبضہ کیا جس کے بعد مولانا نے باجماعت نماز ادا کروائی اور اعلان کیا کہ مدرسے کے پرنسپل مولانا عبدالغفار کو ہٹا دیا گیا۔

اس دوران مولانا عبدالغفار مدرسے کی حدود میں موجود اپنے گھر میں ہی تھے۔

ادھر مولانا عبدالعزیز کے قریبی ساتھی مولانا یعقوب غازی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ مولانا عبدالغفار جانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ 'غلط طرف' تھے۔

مزید پڑھیں: مولانا عبدالعزیز کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار پر لال مسجد تنازع برقرار

مذکورہ واقعہ دوپہر میں ایک مظاہرے کی وجہ بنا جس کے باعث پولیس نے مدرسے کی طرف جانے والی سڑک کو بلا کردیا، تاہم پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ کے عہدیداروں نے کسی ممکنہ تشدد کے امکان کو مسترد کردیا۔

اس حوالے سے انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کورونا وائرس کے باعث تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے جامعہ فریدیہ یا کسی دوسرے مدرسے میں مٹھی بھر طلبہ اور اسٹاف موجود تھا۔

موجودہ صورتحال نے شہری انتظامیہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ مولانا عبدالعزیز کا یہ عمل اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوسکتا ہے جو انہوں نے جون میں اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ کے ساتھ کیا تھا۔

اس بارے میں مولانا یعقوب غازی کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز نے کچھ 2 سال قبل مولانا عبدالغفار کو ایڈمنسٹریٹر سے نائب سربراہ (ڈپٹی چیف) کا عہدہ دیا تھا تاہم 2 ماہ قبل انہوں نے مولانا عبدالغفار کو ڈپٹی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا تھا لیکن وہ اتھارٹیز کے قریب ہوگئے تھے اور جامعہ فریدیہ کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش میں تھے۔

تاہم یہ معاملہ کہ آیا مولانا عبدالعزیز نے آئی سی ٹی انتظامیہ کے ساتھ اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی، یہ بھی اب تک غیریقینی ہے، چونکہ معاہدے کو عوام کے سامنے نہیں لایا گیا تھا تو دونوں فریقین الگ الگ دعویٰ کرتے ہیں۔

انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت مولانا عبدالعزیز 2 ماہ کے لیے اس طرح کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے جبکہ مولانا عبدالعزیز کے داماد ہارون رشید کا کہنا ہے کہ معاہدے کے مطابق وہ 2 ماہ کے لیے لال مسجد میں داخل یا مداخلت نہیں کرسکتے۔

علاوہ ازیں پولیس نے جامعہ فریدیہ کا محاصرہ کرکے وہاں آنے والی تمام سڑکوں کو بند کردیا۔

دوسری جانب پولیس اور انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے ڈان کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کے جامعہ حفصہ سے نکلنے کے فوری بعد انسداد دہشت گردی فورسز، انسداد دہشت گردی اسکواڈ اور انسداد فساد یونٹ سمیت اچھی طرح سامان سے لیس پولیس اہلکار مدرسے کے اطراف تعینات کردیے گئے۔

دریں اثنا ڈپٹی کمشنر سمیت پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسران نے بھی مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات کے لیے مدرسے کا دورہ کیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز، ان کے اہل خانہ اور جامعہ حفصہ سے 50 سے زائد طلبہ نے جی-7 کو چھوڑا اور فجر کے وقت جامعہ فریدیہ کی طرف روانہ ہوئے۔

ان کے مطابق تقریباً ایک گھنٹے بعد اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل اسپیشل برانچ مذکورہ معاملہ متعلقہ حکام کے نوٹس میں لائے۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ

افسران کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین مدرسے کے ناظم مولانا عبدالغفار اور مولانا عبدالعزیز اس وقت مدرسے کے اندر ہیں اور دونوں اس کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

ہارون رشید نے ڈان کو بتایا کہ جامعہ فریدیہ ان کے دادا نے 1970 کی دہائی میں بنایا تھا اور مولانا عبدالعزیز اس کے صحیح مالک تھے، ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا عبدالغفار اور حکومت مولانا عبدالعزیز کو ہٹا کر مدرسے کا قبضہ لینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'انتظامیہ اور پولیس سمیت حکومت مولانا عبدالغفار کی مدد رہی ہے اور جس وقت ہم مدرسے پہنچے پولیس اور انتظامیہ کے حکام بھی وہاں آگئے اور علاقے کا محاصرہ کرلیا'۔


یہ خبر 07 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں