امریکا کو افغانستان سے جلد بازی میں انخلا پر تنبیہ

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
امریکا فروری میں طالبان کے ساتھ ہوئے معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک افغانستان سے 4 ہزار 400 فوجی واپس بلا چکا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا فروری میں طالبان کے ساتھ ہوئے معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک افغانستان سے 4 ہزار 400 فوجی واپس بلا چکا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان، افغانستان اور چین نے امریکا کو افغانستان سے فوری طور پر اپنے فوجیوں کی واپسی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دہشت گرد گروہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تینوں ممالک کے نمائندوں کے درمیاں ویڈیو لنک کے ذریعے منعقدہ ایک اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’تینوں ممالک افغانستان سے مرحلہ وار، ذمہ دارانہ اور شرائط پر مبنی انخلا پر زور دیتے ہیں تا کہ دہشت گردوں کی ممکنہ بحالی سے بچا جاسکے‘۔

چین، افغانستان، پاکستان سہ فریقی وزرائے خارجہ کے اسٹریٹیجک مذاکرات کی سربراہی چینی نائب وزیر خارجہ لو زاؤہوئی، افغان نائب وزیر خارجہ میر واعظ نب اور پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، افغانستان سے امریکی فوج کا 'ذمہ دارانہ انخلا' چاہتا ہے، وزیر خارجہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا فروری میں طالبان کے ساتھ ہوئے معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک افغانستان سے 4 ہزار 400 فوجی واپس بلا چکا ہے۔

اس طرح گزشتہ چند ماہ کے دوران فوجیوں کی تعداد 13 ہزار سے کم ہو کر 8 ہزار600 ہوگئی ہے، دوحہ مذاکرات کے مطابق امریکا کو جولائی تک فوجیوں کی تعداد کم کر کے 8 ہزار 600 کرنی تھی اور اگر طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہتے تو بقیہ فوجیوں کو 14 ماہ کے عرصے میں واپس بلانا تھا۔

تاہم اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخابات کی وجہ سے تیز انخلا چاہتے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ وہ دوبارہ انتخابات میں کامیابی کے امکانات کو تقویت دینے کے لیے ایسا کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع

تاہم سب کے لیے پریشان کن بات بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہے جنہیں 10 مارچ سے شروع ہونا تھا لیکن اس سے قبل کابل کو طالبان کے 5 ہزار جنگجو اور طالبان کو ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کو رہا کرنا شرط تھا۔

علاوہ ازیں اب تک قیدیوں کا تبادلہ سست روی سے ہونے اور مسائل کے مزید بڑھنے کا امکان ہے کیوں کہ افغان حکومت بقیہ 600 طالبان جنگجوؤں کو خطرناک سمجھتے ہوئے رہا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے۔

کابل کی جانب سے 5 ہزار جنگجوؤں کی رہائی کی شرط پوری کرنے کے لیے دیگر طالبان قیدیوں کی رہائی کی تجویز دی گئی ہے اس کے علاوہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی پُرتشدد کارروائیاں بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث شیڈول سے قبل افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا

دوسری جانب حال ہی میں ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز ہوا اور امریکی رپورٹس میں کہا گیا کہ روسی ملٹری ایجنسی نے طالبان کو افغانستان میں امریکیوں کو قتل کرنے کے لیے پیسے دیے تھے۔

لہٰذا جس تناظر میں یہ سہ فریقی اجلاس ہوا وہ اس کی اہمیت اجاگر کرتا ہے، چین اور پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کے لیے قیدیوں کے تبادلے میں تیزی، پر تشدد کارروائیوں میں کمی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر زور دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’چین اور پاکستان، افغان سربراہی میں افغان مفاہمتی امن عمل، جلد از جلد بین الافغان مذاکرات، 2001 سے حاصل کیے گئے فوائد اور افغانستان میں امن و استحاکم کی جلد بحالی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ تعاون میں اضافہ کریں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں