بھارتی پولیس کے دلت جوڑے پر تشدد کے خلاف شدید غم و غصہ

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2020
پولیس نے دلت جوڑے پر ڈنڈے برسائے—فوٹو:بشکریہ الجزیرہ
پولیس نے دلت جوڑے پر ڈنڈے برسائے—فوٹو:بشکریہ الجزیرہ

بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں پولیس نے دلت کسان جوڑے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی فصل کو تباہ کردیا جس کے بعد جوڑے نے خودکشی کی کوشش کی جبکہ پولیس کے اقدام پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دلت جوڑے پر تشدد کیا تھا اور ان کی فصل بھی تباہ کردی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں غریب اقلیتوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی گئی۔

مزید پڑھیں: بھارت میں مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، وزیر خارجہ

سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ درجن بھر پولیس اہلکار جوڑے کو سرکاری زمین سے گھسیٹ کر باہر نکال رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ ریاست مدھیہ پردیش میں پیش آیا جبکہ سوشل میڈیا پر مختصر وقت میں ہی لاکھوں افراد نے ویڈیو دیکھی۔

مقامی انتظامیہ کے سربراہ ایس وشواناتھ نے گزشتہ روز نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ جوڑے نے زہریلی دوا کھا کر خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

تاہم نیوز کانفرنس کے بعد وشواناتھ اور پولیس سربراہ کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔

دلت سیاسی رہنما کماری میاواتی نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ 'جوڑے کی فصل کو تباہ کرکے ان کو خودکشی پر مجبور کرنا انتہائی ظلم اور شرم ناک ہے' ۔

انہوں نے کہا کہ 'ملک بھر سے اس واقعے کی مذمت کا آنا فطری بات ہے، حکومت کو سخت کارروائی کرنی چاہیے'۔

خبر ایجنسی کو ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جوڑے کو وہاں سے ہٹانا، سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف مہم کا حصہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ جس زمین پر جوڑے نے کھیتی باڑی کی تھی وہ ایک کالج کی تعمیر کے لیے مختص کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں اقلیتوں سے ناروا سلوک باعث تشویش ہے، دفتر خارجہ

ریاستی حکومت نے گزشتہ روز ہی 6 پولیس اہلکاروں کو برطرف کرکے واقعے کی تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔

بھارتی مردم شماری سے متعلق دستاویزات کے مطابق بھارت کی نچلی ذات کی نصف سے زائد آبادی کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، کئی ریاستوں میں دلتوں کو زمین دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاچکے ہیں لیکن صرف چند ریاستیں اس پر عمل بھی کر رہی ہیں۔

پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے جوڑے کے پڑوسی این کمار نے نکھیدی گاؤں سے فون پر رائٹرز کو بتایا کہ 'انہوں نے پولیس کی منتیں کی کہ ان کی فصل کو تباہ نہ کریں لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی'۔

ان کا کہنا تھا کہ جوڑا قرض دار تھا اور پولیس سے کہا تھا کہ وہ فصل کی کٹائی تک دو ماہ انتظار کریں۔

مدھیہ پردیش میں موجود قبائلی رہنما اور دلت حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن رام پرکاش شرما نے واقعے کو بدقسمت قرار دیا اور حکام پر زور دیا کہ جوڑے کی مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'مدھیہ پردیش میں دلت انتہائی پسماندہ افراد میں شامل ہیں اور ان کے پاس اپنے زرعی زمینیں نہیں ہیں'۔

رام پرکاش شرما نے مطالبہ کیا کہ 'حکومت اس جوڑے کو ایک گھر اور ملازمت فراہم کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کو پال سکیں اور فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں'۔

مزید پڑھیں:بھارت میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں پر امریکی رپورٹ اہم ہے، دفتر خارجہ

یاد رہے کہ امریکی ادارے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی جانب سے رواں برس جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’مذہبی آزادی کی ممکنہ طور پر سب سے بری اور سب سے خطرناک حد تک بگڑی ہوئی صورتحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہلوانے والے ملک بھارت میں ہے‘۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ بھارت کو ’خاص تشویش ناک ملک‘ قرار دیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’مذہبی آزادی کی ممکنہ طور پر سب سے گری ہوئی اور سب سے خطرناک حد تک بگڑی ہوئی صورت حال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ہے‘۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ ’مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے ساتھ سال 2019 میں بھارت کی ساکھ میں تیزی سے تنزلی دیکھی گئی‘۔

ادارے کی نائب چیئرمین نادائن مائنزا کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ’چونکا دینے والا اور پریشان کن‘ اقدام شہریت ترمیمی قانون کی منظوری تھی جس نے مسلمانوں کے سوا دیگر 6 مذاہب کے ماننے والوں کے لیے شہریت کا عمل تیز کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب حکومت اپنے قومی رجسٹریشن پروگرام کو مکمل کرے گی تو اس سے ممکنہ طور پر لاکھوں مسلمانوں کی حراست، ملک بدری اور بے وطنی کا خطرہ ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں