انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں نے اسلام آباد کے سیکٹر جی -6 سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کی گاڑی دارالحکومت کے سیکٹر جی 6 میں ایک اسکول کے باہر کھڑی حالت میں پائی گئی تھی اور ان کا ایک موبائل فون گاڑی کے اندر تھا۔

مطیع اللہ جان کی گمشدگی نے انسانی حقوق تنظیموں اور دیگر صحافیوں کی توجہ مبذول کروائی، جنہوں نے واقعے کو ملک میں آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔

واقعے کے فورا بعد ہی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا سے متعلق کئی ہیش ٹیگز ٹویٹر پر ٹرینڈ ہونے لگے۔

بعد ازاں ایک بیان میں کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے صحافی کے 'اغوا جیسی گرفتاری' کی مذمت کی۔

کے یو جے نے مطالبہ کیا کہ 'مطیع اللہ جان ہمیشہ ایک سیدھے اور دیانتدار صحافی رہے ہیں'۔

ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافی کی فوری بازیابی کو یقینی بنائے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکام سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ‘صحافی کی موجودگی سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں‘۔

ایک ٹوئٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ اسے صحافی کی خیریت اور حالت کے حوالے سے سخت تشویش ہے، جنہیں ایمنسٹی کے مطابق ’صحافت کی وجہ سے جسمانی حملے اور ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا‘۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے کہا کہ انہیں ’مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا ہر سخت تشویش ہے، انہیں فوری طور پر رہا اور ان کے اہل خانہ کے پاس پہنچانا چاہئے‘۔

فریڈم نیٹ ورک نے مطیع اللہ جان کی گمشدگی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کیا۔

سپریم کورٹ نوٹس لے، کراچی پریس کلب

کراچی پریس کلب کے صدر محمد امتیاز خان فاران، سیکریٹری ارمان صابر اور اراکین گورننگ باڈی نے دارالحکومت اسلام آباد سے دن دہاڑے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی بدنامی کے مترادف قرار دیا۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔

کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ارکان نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہونے والے اقدامات پر لگی ہوئی ہیں، جس کے باعث میڈیا انڈسٹری بدترین بحران کا شکارہے اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا کیس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے اور وہ اغوا ہوئے جس سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔

کراچی پریس کلب کے اراکین گورننگ باڈی نے مطیع اللہ جان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافی برادری کو اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف متحد ہوکر اٹھنا پڑے گا۔

آسٹریا میں مقیم انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے بھی مطیع اللہ جان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔

آئی پی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسکاٹ گریفن نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہمیں خوف ہے کہ مطیع اللہ جان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں ڈھونڈنے اور ان کے فرضی اغوا کاروں سے ان کی رہائی کو یقینی بنانے کےلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے حکام مطیع اللہ جان کی حفاظت کے تحفظ میں تاخیر نہیں کرسکتے ہیں'۔

ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے واقعے کو 'انتہائی پریشان کن' اور 'انتہائی قابل مذمت' قرار دیا اور ایڈیٹرز سے مطیع اللہ جان کے لاپتا ہونے کی خبروں کو نشر کرکے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’کیا بات ہے، نامعلوم افراد نے مطیع اللہ جان کو آبپارہ سے اٹھا لیا، واقعی نامعلوم؟‘

صحافی کی گمشدگی پر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ’اس فاشسٹ دور میں ایسی مایوس کن حرکتیں زیادہ دیر نہیں چلیں گی'۔

اینکرپرسن شاہ زیب خانزادہ نے بھی دن دہاڑے مبینہ اغوا پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'آزادی صحافت پہلے ہی پاکستان میں زیر اثر ہے'۔

اینکرپرسن نجم سیٹھی نے چینج ڈاٹ آر پر ایک آن لائن پٹیشن شروع کی جس میں مطیع اللہ جان کی 'فوری رہائی' کا مطالبہ کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں