یوکرین: بس میں مسافر 12 گھنٹے تک یرغمال رہنے کے بعد رہا

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
پولیس نے بس کا گھیراؤ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے بس کا گھیراؤ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

یوکرین کی پولیس نے بتایا ہے کہ ایک مسلح شخص کی جانب سے 13 مسافروں پر مشتمل بس کا محاصرہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے ٹیلی گرام پر پوسٹ کیا کہ 'مغوی رہا ہوگئے ہیں! جس شخص نے لوٹسک میں ایک بس میں انہیں یرغمال بنایا تھا اسے حراست میں لے لیا گیا ہے'۔

یہ بحران 12 گھنٹے تک جاری رہا جس میں پولیس مجرم سے طویل بات چیت کے بعد پہلے 3 مغویوں کو گاڑی سے باہر لے جانے کا انتظام کرسکی تھی۔

اس حوالے سے ایس بی یو سیکیورٹی سروس نے بتایا کہ واقعے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 13 مغویوں کو رہا کیا گیا جبکہ کسی شہری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

مزید پڑھیں: یوکرین میں کورونا وائرس کیسز میں ریکارڈ اضافہ

انہوں نے بیان میں کہا کہ 'دہشت گرد کی شناخت ماکسم کریووش کے نام سے ہوئی ہے، جو انتہا پسند نظریات رکھتا تھا'۔

وزیر داخلہ ارسن آواکوف نے اپنے ٹوئٹر پر تصاویر جاری کیں جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو لوگوں کو لے جاتے دکھایا گیا جبکہ ایک جینز پہنا شخص زمین پر لیٹا ہوا بھی دیکھا گیا جس کے ہاتھ کمر پر بندھے ہوئے تھے۔

اس سے قبل ، پولیس نے دارالحکومت کیف سے تقریباً 400 کلومیٹر دور 2 لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر کو گھیرے میں لے لیا تھا اور رہائشیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے گھر یا دفتر کو نہ چھوڑیں۔

مذکورہ معاملے پر نائب وزیر داخلہ انٹون گیراشینکو نے بتایا کہ یرغمال بنانے والے نے پولیس ڈرون پر گولیاں چلائیں جو بس کے اوپر اڑ رہا تھا جبکہ دھماکا خیز مواد بھی سڑک پر پھینکا تھا۔

تاہم پولیس بیان میں کہا گیا کہ 'حملہ آور نے بس سے دستی بم پھینکا جو خوش قسمتی سے پھٹ نہیں سکا'۔

مقامی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیو فوٹیج اور تصاویر میں مسلح پولیس کو نیلے اور سفید رنگ کی بس کے آس پاس دکھایا گیا جبکہ اس بس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس میں پردے لگے ہوئے تھے۔

پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے بتایا کہ حملہ آور نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں ایک عوامی مقام پر ایک علیحدہ بم نصب ہے اور ریموٹ کے ذریعے اس کا دھماکا کیا جاسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران نے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے کا اعتراف کرلیا

انٹون گیراشینکو نے کہا کہ یرغمال بنائے جانے والے نے ابتدائی طور پر پولیس سے رابطہ کیا اور اپنی شناخت ماکسم پلوخوئی کے نام سے کی تھی جو ایک فرضی نام تھا اور اس کا مطلب ہے 'بیڈ میکسم' (میکسم ایک نالی والی گن کو کہتے ہیں جو تیزی سے گولیاں چلاتی ہے)۔

بعد ازاں انہوں نے اس شخص کی شناخت 44 سالہ ماکسم کریووش کے نام سے کی۔

نائب وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ماکسم کریووش دھوکا دہی اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سمیت دیگر الزامات کے تحت تقریباً 10 سال جیل میں گزار چکا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس کا نفسیاتی علاج بھی کیا گیا تھا لیکن وزیر داخلہ ارسن آواکوف نے بعدازاں اس کی تردید کردی۔

نائب وزیر داخلہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماکسم کریووش سے بحران کو 'مذاکرات کے ذریعے' حل کرنے کی امید کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'صورتحان بہت 'پریشان کن' ہے، حملہ آور مغویوں کو کھانے اور پینے کی بھی اجازت نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی انہیں واش روم جانے دے رہا تھا۔

ادھر ٹوئٹر نے پلوخوئی کے نام سے ایک اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کردیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ مسلح ہے اور اس کے پاس بم بھی ہے۔

اس اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹس میں اسے 'نظام مخالف' بتایا گیا تھا اور حکام سے مطالبات کیے گئے تھے۔

وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ اکاؤنٹس اصلی تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں