افغان لڑکی نے والدین کو قتل کرنے پر 2 طالبان جنگجوؤں کو مار ڈالا

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
قمر گل افغان صوبے غور کی رہائشی ہیں—تصویر: ون  ٹی وی نیوز افغانستان ٹوئٹر
قمر گل افغان صوبے غور کی رہائشی ہیں—تصویر: ون ٹی وی نیوز افغانستان ٹوئٹر

غزنی: ایک افغان لڑکی نے ان 2 طالبان جنگجوؤں کو گولی مار کر ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا جنہوں نے حکومت کی حمایت کرنے پر لڑکی کے والدین کو گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے تھے اور مار دیا تھا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ہفتے پیش آیا جب جنگجوؤں نے صوبہ غور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی قمر گل کےگھر پر حملہ کیا۔

مقامی پولیس کے سربراہ حبیب الرحمٰن ملک زادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگجو، لڑکی کے والد کو تلاش کررہے تھے۔

پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے والد حکومت کے حمایتی تھے اس لیے طالبان ان کے گھر گئے اور انہیں گھسیٹ کر باہر نکالا، جب ان کی اہلیہ نے مزاحمت کی تو طالبان نے دونوں میاں بیوی کو انہی کے گھر کے باہر قتل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: مشرقی افغانستان میں طالبان کے حملے میں 14 افغان فوجی ہلاک

پولیس افسر نے بتایا کہ قمر گل گھر کے اندر موجود تھی جس نے یہ صورتحال دیکھتے ہوئے اے کے 47 (کلاشنکوف) اٹھائی اور پہلے ان 2 طالبان جنگجوؤں کو مارا جنہوں نے اس کے والدین کو قتل کیا تھا اور پھر دیگر کو زخمی کردیا۔

افغان حکام کے مطابق قمر گل کی عمر 14 سے 16 سال کے درمیان ہے تاہم افغانستان میں عام طور پر عمر کا درست ریکارڈ رکھا نہیں جاتا۔

واقعے کے بعد دیگر طالبان جنگجو ان کے گھر پر حملہ کرنے آئے لیکن گاؤں والوں اور حکومت کی حمایت کرنے والے عناصر نے انہیں ایک جھڑپ کے بعد واپس جانے پر مجبور کردیا۔

صوبے کے گورنر کے ترجمان محمد عارف ابر نے بتایا کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے قمر گل اور ان کے چھوٹے بھائی کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں افغان فوج کے 13 اہلکار ہلاک

واقعے کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جہاں قمر گل کو ان کے ’بہادرانہ‘ عمل پر خوب سراہا جارہا ہے۔

اس کے ساتھ گزشتہ چند روز کے دوران قمر گل کی ایک تصویر جس میں انہوں نے سر پر دوپٹہ پہنا ہوا ہے اور ہاتھ میں مشین گن تھامی ہوئی ہے وہ بھی وائرل رہی۔

ایک فیس بک صارف نجیبہ رحیمی نے لکھا کہ ’ہمت کو سلام ہے، بہت اچھا کیا‘، ایک اور فیس بک صارف فضیلہ علی زادہ نے کہا کہ ’افغان لڑکی کی طاقت‘۔

علاوہ ازیں محمد صالح نامی فیس بک صارف کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ والدین کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن آپ کا انتقام آپ کو سکون دے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں اب بھی غیر ملکی جنگجو موجود ہیں، اقوام متحدہ

واضح رہے کہ طالبان عموماً گاؤں کے ان افراد کو قتل کرتے ہیں جن پر انہیں حکومت یا سیکیورٹی فورسز کے مخبر ہونے کا شک ہوتا ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران جنگجوؤں نے کابل کے ساتھ امن معاہدے پر اتفاق کے باوجود سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔


یہ خبر 22 جولائی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں