پی ٹی اے سے ٹاک ٹاک اور بیگو کیخلاف کارروائی پر نظرثانی کی درخواست

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
سوشل میڈیا صارفین نے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر پابندی کو تفریح سے محروم نوجوانوں کے تخلیقی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا ہے — فوٹو: اے پی
سوشل میڈیا صارفین نے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر پابندی کو تفریح سے محروم نوجوانوں کے تخلیقی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا ہے — فوٹو: اے پی

کراچی: حکومت جہاں ایک جانب آن لائن 'غیر اخلاقی' مواد پر پابندی عائد کررہی ہے تو وہیں ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر حالیہ پابندی کو تفریح سے محروم نوجوانوں کے تخلیقی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اپنے بیان میں اعلان کیا تھا کہ اس نے ویڈیو شیئرنگ سروس ٹک ٹاک کو 'فحش اور غیر اخلاقی مواد' ہٹانے کے لیے 'حتمی انتباہ' جاری کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: ٹک ٹاک پر دوست بنانے کے بعد لڑکی کا 'گینگ ریپ'

ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا کہ انہوں نے ایپ کی لائیو اسٹریمنگ روک دی ہے کیونکہ ایپ کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں کہ اس سے معاشرے اور خاص طور پر نوجوانوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

تجزیاتی کمپنی سینسر ٹاور کے مطابق چین کے بائٹ ڈانس کی ملکیت ٹِک ٹاک کو پاکستان میں تقریبا تین کروڑ 90 لاکھ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور یہ گزشتہ سال واٹس ایپ اور فیس بک کے بعد تیسری سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ تھی۔

پاکستان میں بیگو لائیو کو ایک کروڑ 70 لاکھ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور یہ ملک کی 19 ویں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک نے 6 ماہ میں 5 کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کیں

پاکستان میں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود پی ٹی اے نے کہا کہ ان کمپنیوں کا ردعمل قابل اطمینان نہیں تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ارسلان خالد نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سخت اقدامات ضروری تھے کیونکہ پلیٹ فارم صورتحال کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے تھے۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ٹِک ٹاک پر خواتین ٹِک ٹاکرز کے حالیہ استحصال، ٹک ٹاک پر چھوٹی لڑکیوں کا استحصال اور جنسی زیادتی سے والدین کو انتہائی تکلیف پہنچ رہی ہے اور وہ ہمارے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی۔

ٹک ٹوک نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ٹک ٹوک کا کہنا تھا کہ اس نے 4 کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ویڈیوز کو حذف کردیا جنہوں نے جولائی اور دسمبر 2019 کے درمیان قواعد کی خلاف ورزی کی، ان میں سے ایک تہائی ویڈیوز کو عریاں یا جنسی سرگرمیوں کی وجہ سے ڈیلیٹ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ٹک ٹاک پر پابندی کیلئے عدالت میں درخواست دائر

ان میں سے تقریباً ایک تہائی ویڈیوز بھارت کی تھیں (جہاں اب اس ایپ پر پابندی عائد کردی گئی ہے)، اس کے بعد امریکا اور پاکستان ہیں جہاں اس نے اپنی کمیونٹی کے رہنما اصولو ضوابط کی خلاف ورزی پر 30 لاکھ سے زیادہ ویڈیوز کو ہٹا دیا ہے۔

‘سی پی کے اصول لاگو ہو رہے ہیں’

ڈیجیٹل حقوق کے گروپوں کو خوف لاحق ہے کہ حالیہ پابندی کے تحت شہری تحفظ (آن لائن نقصان کے خلاف) قواعد 2020 میں وضع کی گئی پابندی کی پیروی کی گئی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتی درخواستوں پر عمل نہ کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے جس میں پاکستان میں پورے پلیٹ فارم پر پابندی بھی شامل ہے۔

بولو بھی کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے ڈان کو بتایا تھا کہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعہ 37 پی ٹی اے کو بیرون ملک اختیارات فراہم کرتی ہے جہاں ایگزیکٹو افسران نے آرٹیکل 19 اخلاقیات اور فحاشی سمیت دیگر چیزوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس پابندی کو بغیر احتساب یا جانچ کے منظور کرتے ہیں۔

اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ تفریح سے محروم نوجوانوں کے لیے اس طرح کی ایپلی کیشنز خصوصی طور پر اظہار رائے کا ایک ذریعہ ہیں لہٰذا جہاں شہریوں کے لیے اخلاقیات کا تدارک کرنا ریاست پر منحصر نہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے بھی پی ٹی اے پر زور دیا کہ وہ نابالغوں کی حفاظت کے لیے ان کے نقطہ نظر پر نظر ثانی کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین کو موبائل سے ٹک ٹاک ایپ ہٹانے کی ای میل غلطی سے کی گئی، ایمازون

منگل کو جاری بیان میں کہا گیا کہ بچوں اور نوجوانوں کے 'تحفظ' کے لیے یہ پابندیاں عائد کرنا ایسا ہی ہے جیسے سڑک پر حادثات سے بچنے کے لیے ہائی وے پر پابندی لگادی جائے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواستوں پر پابندی عائد کرنا اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس کی بنیادی وجوہات انفرادی ایپلی کیشنز یا یہاں تک کہ انٹرنیٹ سے بالاتر تھیں۔

قانونی چیلنجز

پی ٹی اے نے کہا کہ اس نے پیکا کے تحت اپنے اختیارات کے استعمال پر عملدرآمد کو محدود کردیا ہے۔

ڈی آر ایف نے نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی نہ تو مناسب تھی، یہ پی ٹی اے کے بیان کردہ نقصان کے لیے ضروری تھی اور نہ ہی قانون کے تحت ان کا کوئی جواب بنتا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں پی ٹی اے کی جانب سے مقبول آن لائن گیم پب جی کی عارضی معطلی کی مثال دیتے ہوئے رائٹس گروپوں کا کہنا تھا کہ انضباطی اتھارٹی دفاع کے مناسب مواقع کے بغیر کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو روک نہیں سکتی۔

پب جی پر پابندی کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پی ٹی اے نے کہا کہ اگر معطلی کے احکامات قانونی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں تو اس کی تفصیلات طلب کریں، اس کیس سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حریم شاہ بھی ٹک ٹاک پر پابندی کی حامی

انسانی حقوق کے گروپوں نے مطالبہ کیا کہ پی ٹی اے ایک تحریری حکم پیش کرے جس کی بنا پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

کمانے کا مواقع

ڈی آر ایف نے کہا کہ ان پلیٹ فارمز نے مواد تخلیق کرنے والوں کو لائیو اسٹریمنگ اور تخلیقی ویڈیوز سے کمائی کے مواقع فراہم کیے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے پاکستانی اعلیٰ پیشہ ور آن لائن گیمرز کے گروپ میں شامل ہیں جن میں پب جی جیسے پلیٹ فارم کا استعمال کیا گیا اور یہاں مقامی سطح پر آن لائن کھیلوں کی ثقافت بڑھتی جارہی ہے۔

ڈی آر ایف نے افسوس کا اظہار کیا کہ کووڈ 19 کے بعد معیشت میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع امکانات تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ایسے میں ان معاشی مواقع کو ختم کرنا بہت سے لوگوں کے معاش کو تباہ کر سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں