ویسے تو اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے مگر کینسر ایسا جان لیوا مرض ہے جس کے کیسز کی تعداد ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

ویسے تو کیسز کا علاج بہت مشکل ہوتا ہے تاہم اگر اس کی تشخیص جلد ہوجائے تو اس کا علاج ممکن ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چین کے طبی ماہرین کی ایک حالیہ پیشرفت سے توقع پیدا ہوئی کہ کسی فرد میں کینسر کی تشخیص بیماری کے ابھرنے سے کئی سال پہلے ممکن ہوجائے گی۔

طبی جریدے جرنل کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں ایک ایسے بلڈ ٹیسٹ کی تیاری کے بارے میں بتایا گیا کہ جو مختلف اقسام کے کینسر کی تشخیص علامات ابھرنے سے 4 سال قبل کرسکتا ہے۔

پان سیر نامی بلڈ ٹیسٹ سے ماہرین نے 95 فیصد افراد میں کینسر کی تشخیص کی جن میں علامات نہیں تھیں مگر کافی عرصے بعد بیماری کو دریافت کیا گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 اقسام کے کینسر کو ڈی این اے میتھائی لیشن پر مبنی بلڈ ٹیسٹ کو پکڑنے میں روایتی تشخیص سے 4 سال قبل کامیابی حاصل کی۔

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ٹیسٹ کینسر کی پیشگوئی کی بجائے کی سرطان کی نشوونما کو پکڑتا ہے جو اس وقت علامات کا باعث نہیں بنتا یا دیگر طریقوں سے اس کی تشخیص ممکن نہیں ہوتی۔

اس طرح کے ٹیسٹوں کو لیکوئیڈ بائیوپسیز کا نام دیا گیا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔

کینسر کی جلد تشخیص کے لیے کسی بلڈ ٹیسٹ کی مدد لینے کا خیال نیا نہیں، تاہم نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ان کا کام اچھا رہا کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کینسر کی تشخیص کئی سال قبل بھی ممکن ہے۔

محققین کے مطابق اس نئے بلڈ ٹیسٹ میں مخصوص حصوں کے بلڈ پلازما میں ڈی این اے میں میتھائل گروپس کو دیکھا جاتا ہے جو عموماً ڈی این اے میں رسولی کا باعث بنتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس تیکنیک سے وہ بہت چھوٹے حصوں کا بھی معائنہ کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی مشین لرننگ الگورتھمز کو استعمال کرکے ایک سسٹم تشکیل دیا جاتا ہے جو تعین کرتا ہے کہ خون میں گردش کرنے والے ڈی این اے رسولی کا نتیجہ تو نہیں، جس کی بنیاد میتائل گروپس کی موجودگی ہوتی ہے۔

اس ٹیسٹ کی تیاری کے لیے سائنسدانوں نے چین میں 2007 سے 2014 کے دوران مختلف افراد کے خون کے نمونے اکٹھے کیے۔

ان میں سے 414 افراد ایسے تھے جو نمونے لیے جانے کے 5 سال بھی کینسر سے محفوظ رہے جبکہ 191 میں معدے، جگر، پھیپھڑوں، غذائی نالی یا colorectal کینسر کی تشخیص خون کے نمونے جمع کیے جانے کے بعد 4 سال کے اندر ہوئی۔

محققین نے بائیو بینکس سے ایکسے 223 مریضوں کے نمونے بھی جمع کیے جن میں پہلے ہی ان 5 میں سے کسی ایک کینسر کی تشخیص ہوچکی تھی۔

اس کے بعد سسٹم کو نصف نمونوں سے تربیت دی گئی اور پھر باقی نمونوں پر اس بلڈ ٹیسٹ کی آزمائش کی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ پان سیر پہلے سے کینسر کے شکار 88 فیصد میں بیماری کی درست تشخیص کی، جبکہ 95 فیصد ایسے افراد، جن میں علامات یا بیماری نظر نہیں آئی تھی، ان کے بارے میں بھی درست تشخیص کی، جس کی تصدیق کئی سال بعد ہوئی۔

اسی طرح ٹیسٹ میں 96 فیصد افراد کو بھی درست شناخت کیا گیا جو اس بیماری سے محفوظ رہے۔

تحقیق کسی حد تک محدود تھی کیونکہ بہت کم تعداد میں نمونوں کو استعمال کیا گیا، جبکہ تحقیقی ٹیم نے ممکنہ ملاوٹ کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے، جبکہ ٹیسٹ یہ شناخت بھی نہیں کرسکتا کہ کسی فرد میں مستقبل میں کونسے قسم کے کینسر کی تشخیص ہوگی۔

تاہم تحقیقی ٹیم میں شامل امریکا کے کلیولینڈ کلینک کے ٹاؤسنگ کینسر انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر ایرک لین نے نئی تحقیق کے نتائج کو خوش آئند قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پرجوش تحقیق تھی جو اس بات کی مزید تصدیق کرتی ہے کہ میتھائی لیشن پر مبنی ٹیسٹ رسولی کے ڈی این اے کو پکڑ سکتے ہیں اور ان کی بدولت ابتدائی مراحل میں ہی کینسر کی تشخیص ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں