سنتھیا رچی کیس میں وزارت داخلہ کی رپورٹ مسترد

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2020
سنتھیا رچی کا معاملہ عدالت میں ہے—فائل فوٹو: فیس بک
سنتھیا رچی کا معاملہ عدالت میں ہے—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی پر وزارت داخلہ کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کو اس کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن افتخار احمد کی جانب سے دائر کردہ اس درخواست کی سماعت، جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ وزارت داخلہ کو ہدایت کی جائے کہ وہ ویزا اور پاسپورٹ سے متعلق معاملات اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف مبینہ ہتک آمیز ٹوئٹس پر سنتھیا رچی کو ملک بدر کرے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ سنتھیا رچی پاکستان میں توسیعی ویزے پر ہیں، تاہم پی پی پی قیادت کے خلاف ہتک آمیز ٹوئٹس کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ عدالتی معاملہ ہے۔

اپنی رپورٹ میں وزارت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی پاکستان میں بزنس ویزا پر آئی تھیں اور وہ فوج کے میڈیا امور کے ونگ انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) اور خیبر پختونخوا کے اشتراک سے فلمی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سنتھیا رچی کے ویزے پر وزارت داخلہ سے وضاحت طلب

واضح رہے کہ عدالت نے امریکی بلاگر سنتھیا رچی کا مؤقف سننے کے بعد زبانی حکم نامے کے ذریعے معاملے کو وزارت داخلہ کو بھیج دیا تھا۔

علاوہ ازیں درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے نقطہ اٹھایا کہ سنتھیا رچی ملک میں کسی بھی حلقے میں بطور ووٹر رجسٹرڈ نہیں تھیں اور پھر بھی انہوں نے مقامی سیاسی معاملات پر ٹوئٹ کیا۔

اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ کہا کہ امریکی شہری کے خلاف الزامات سنجیدہ نوعیت کے تھے، ساتھ ہی انہوں نے ان منصوبوں کے بارے میں پوچھا جس پر وہ آئی ایس پی آر اور صوبائی حکومت کے اشتراک سے کام کر رہی اور آیا ان منصوبوں کے لیے ٹیکس دہندگان کے فنڈز کا استعمال کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ بلاگر کے خلاف الزمات سے متعلق ایک شفاف تحقیقات کرے جبکہ وزارت داخلہ کو اس معاملے کو دیکھتے ہوئے ملک کی ساکھ کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے حکومت سے ہدایات حاصل کرنے کےلیے عدالت سے کچھ وقت طلب کیا، جس پر کیس کی سماعت کو 4 اگست تک ملتوی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلاگر سنتھیا رچی کا پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک پر ریپ کا الزام

واضح رہے کہ 17 جولائی کو وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سنتھیا رچی نے اپنی درخواست میں بتایا کہ وہ آئی ایس پی آر اور خیبر پختونخوا حکومت کے اشتراک سے واک اباؤٹ فلمز کے ساتھ مل کر ملک میں فلموں کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ایک سال سے اپنے بزنس ویزا کی باضابطہ توسیع کے لیے مکمل دستاویزات کی منتظر تھیں جس میں کچھ دن اور لگ سکتے ہیں لہٰذا انہوں نے اپنے ویزے میں عارضی طور پر 30 دن کی توسیع کی درخواست کی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے جواب داخل کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ سنتھیا رچی کے ویزا میں 31 اگست تک توسیع کی گئی ہے اور جس طرح سے الزام عائد کیا گیا اس کے برعکس وہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی حرکت یا ناپسندیدہ یا ریاست مخالف سرگرمی کی مرتکب نہیں ہوئیں۔

سنتھیا رچی تنازع

خیال رہے کہ امریکی بلاگر سنتھیا رچی کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں لیکن گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ’نامناسب‘ ٹوئٹ کے بعد ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'سنتھیا آئی ایس پی آر اور حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ منصوبوں پر کام کر رہی ہیں'

پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے حکام کو امریکی بلاگر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم جاری ہوا، انہوں نے اس کارروائی کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم وہ مسترد ہوگئی۔

دوسرا اور سب سے اہم معاملہ سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ اور پی پی پی کے دور دیگر رہنماؤں پر دست درازی کرنے کا الزام عائد کیا جانا تھا۔

مذکورہ الزامات پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمٰن ملک کی جانب سے امریکی بلاگر کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں