طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل خبردار کیا جارہا ہے کہ نوجوانوں کو نئے کورونا وائرس کی وبا کے دوران باہر بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے چاہے زیادہ متاثر نہ ہوں، مگر وہ اپنے بزرگوں کو جان لیوا حد تک بیمار کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ امریکی ریاست ٹیکساس میں پیش آیا جہاں ایک لڑکی ایک تقریب میں شرکت کے بعد کورونا وائرس کا شکار ہوئی اور اسے آگے اپنے دادا میں منتقل کردیا، جس کا انتقال ہوگیا۔

ڈاکٹر جوزف چینگ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ 20 سال سے زائد عمر کی یہ لڑکی اپنے دوستوں کی ایک تقریب میں شرکت کے بعد وائرس سے متاثر ہوئی، جس کے بعد وہ اس وقت اپنے 80 سال سے زائد عمر کے دادا دادی سے ملنے گئی، جب کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

لڑکی سمیت تینوں کو بعد میں ڈیلاس کے ہارک لینڈ ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرایا گیا جہاں اس لڑکی کا علاج ڈاکٹر جوزف چینگ نے کیا، جو اس ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر ہیں۔

ڈاکٹر چینگ نے بتایا کہ وہ لڑکی 10 دن تک نظام تنس سپورٹ پر بے ہوش رہی اور جب اسے ہوش آیا، تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے دادا اس کے بیدار ہونے سے ایک دن پہلے چل بسے ہیں۔

ڈاکٹر چینگ کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں وائرس سے اموات کی شرح لگ بھگ ایک فیصد ہے جو امریکا میں اس وبائی مرض سے ہونے والی اموات کی شرح سے بہت کم ہے، مگر اتنی کم شرح بھی متاثرہ مریضوں اور ان کے خاندانوں کی صورتحال مشکل بنانے کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے کہا 'یہ ایک فیصد کون ہیں؟ کیا آپ ان ایک فیصد میں شامل ہونا چاہیں گے؟ میں نہیں جانتا کہ کون اس ایک فیصد میں شامل ہوسکتا ہے، درحقیقت یہ کوئی بھی نہیں جانتا'۔

طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل زور دیا جارہا ہے کہ وائرس سے کیسز کی شرح میں کمی آ بھی جائے تو بھی احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری اور بلاضرورت گھروں سے باہر جانے سے گریز کرنا نہ صرف کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے بلکہ اس طرح آپ اپنے گھروالوں کو بھی اس جان لیوا بیماری سے بچاسکتے ہیں۔

متعدد افراد کورونا وائرس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے اور اس بیماری کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں اور کچھ نے تو بستر مرگ پر پچھتاوے کا اظہار بھی کیا۔

ٹیکساس سے ہی تعلق رکھنے والے 30 سالہ شخص ایک کووڈ 19 پارٹی میں شرکت کے بعد چل بسا اور موت سے چند لمحات قبل اس نے نرس کو کہا تھا 'میرے خیال میں مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے سوچا کہ یہ ایک افواہ ہے، مگر ایسا نہیں تھا'۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ ایک شخص نے جون کے آغاز میں ایک دعوت میں شرکت کی اور 20 جون کو وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد چل بسا۔

اس نے بھی موت سے پہلے فیس بک پر پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا 'میری حماقت کی وجہ سے میں نے اپنی ماں، بہنوں اور خاندان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا، یہ ایک بہت تکلیف دہ تجربہ تھا'۔

کچھ متاثرہ افراد کے خاندانوں نے احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کو پہننے کی اہمیت پر بات کی۔

مثال کے طور پر ایریزونا سے تعلق رکھنے والا ایک شخص 30 جون کو چل بسا اور اس کی بیٹی نے اس کی وجہ مقامی اور وفاقی سیاستدانوں کی جانب سے ریاست کو جلد کھولنا قرار دیا۔

ایسا ہی کچھ شمالی ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ خاتون پاؤلا کاسٹیلو نے بھی بتایا جو ڈھائی ماہ سے زائد عرصے تک کورونا وائرس سے لڑتی رہی۔

پاؤلا کاسٹیلو کو 27 اپریل کو کورونا وائرس کی علامات جیسے کھانسی، سانس لینے میں مشکلات اور بخار کے ساتھ ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں داخل کیا گیا تھا۔

اس وقت خاتون کا خیال تھا کہ یہ بیماری اسے متاثر نہیں کرسکتی اور اسی وجہ سے وہ احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کے استعمال سے دور تھی۔

سی بی ایس سے بات کرتے پاؤلا نے بتایا 'میں ہمیشہ لوگوں کے ارگرد رہتی تھی مگر میرا خیال تھا کہ میں ٹھیک ہوں، مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں اس کا شکار ہوسکتی ہوں'۔

مگر 79 دن ہسپتال میں گزارنے کے بعد جہاں وہ موت کے منہ میں پہنچ گئی تھی، پاؤلا کاسٹیلو کو لگتا ہے کہ اس نے جان لیوا غلطی کی تھی۔

انہوں نے کہا 'شاید اگر میں نے ماہرین کی بات سن کر فیس ماسک کو پہن لیا ہوتا، تو میں ان سب سے بچ جاتی'۔

تبصرے (0) بند ہیں