طالبان نے افغان حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت رہا کیے گئے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کررہی ہے۔

الجزیزہ کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت نے طالبان کے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا، طالبان کا قیدیوں کی رہائی سے متعلق افغان حکومت کے ’اعلان‘ کا خیر مقدم

واضح رہے کہ افغان حکومت اب تک تقریباً 4 ہزار سے زائد طالبان جنگجوؤں کو رہا کرچکی ہے جبکہ طالبان 700 افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو رہا کرچکے ہیں۔

دوحہ میں موجود طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا کہ افغان خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (این ڈی ایس) نے رہا کیے جانے والے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مبینہ نظربندی بند نہ کی گئی تو کابل میں انتظامیہ 'نتائج کی ذمہ دار ہوگی'۔

سہیل شاہین نے یہ بھی کہا کہ رہائی پانے والے قیدیوں نے افغان حکومت کی ہدایت پر عمل کیا کہ وہ گھر میں ہی رہیں اور میدان جنگ میں واپس نہ جائیں۔

دوسری جانب افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ایک مشیر جاوید فیصل نے الزام لگایا کہ رہائی پانے والے متعدد قیدی میدان جنگ میں واپس آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان نے قیدیوں کے تبادلے پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کردیے

انہوں نے طالبان کے ان دعوؤں کو بھی مسترد کردیا کہ رہائی پانے والے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہیں۔

دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے افغان مفاہمت کے لیے سفیر زلمے خلیل زاد، دوحہ اور کابل کا دورہ کریں گے اور 'قیدیوں کے تبادلے اور تشدد کو کم کرنے' کے سلسلے میں فریقین کو آمادہ کریں گے۔

دوسری جانب طالبان نے 2 جون کو جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ (پی ڈی ایف) پر تنقید کی ہے جس میں ایسے عوامل کا ذکر کیا گیا جو امریکا اور طالبان کے معاہدے کو کمزور کرنے میں کارفرما ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ 'سلامتی کونسل کے ممبر ممالک کو بھی غلط انٹیلی جنس کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی امن دشمن عناصر جو افغانستان میں جنگ کے تسلسل کے خواہاں ہیں، کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو قابل اعتبار سمجھنا چاہیے۔

28 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ تھی کہ افغانستان میں طالبان نے القاعدہ کے ساتھ مبینہ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان نے عوام کو کورونا سے بچانے کیلئے آگاہی مہم شروع کردی

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان روزانہ کی بنیاد پر القاعدہ سے امریکا کے معاملے پر مشاورت کرتے ہیں۔

لیکن طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے کہا کہ القاعدہ کے جنگجوؤں کو 'اپنے ممالک میں محفوظ زونز ملے ہیں اور سبھی نے اپنے اپنے آبائی علاقوں کے لیے ہمارے ملک کو چھوڑ دیا'۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا تاہم اب تک حکومت نے ایک ہزار طالبان قیدیو کو رہا کیا ہے۔

چار صفحات پر مشتمل افغان امن معاہدہ 4 مرکزی حصوں پر مشتمل ہے جس میں طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا، افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا، طالبان 10مارچ 2020 سے انٹرا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے اور انٹرا افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

معاہدے کے مطابق افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان

تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا تھا، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔

جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں