وزیر اعظم کا افغانستان پر طالبان کے ساتھ جلد از جلد امن قائم کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 04 اگست 2020
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی۔  فائل فوٹو:پی آئی ڈی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی۔ فائل فوٹو:پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مستقل طور پر امن کی کوشش کرے۔

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ 'امن عمل کی موجودہ رفتار کو امریکا، طالبان امن معاہدے کے نفاذ کے لیے بڑھانا ہوگا جس سے بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہونے کی راہ ہموار ہو سکے گی'۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی۔

وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق 'دونوں رہنماﺅں نے افغان امن عمل کے نئے مرحلے پر بھی تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم عمران خان نے امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن بڑی اہمیت کا حامل ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: مائیک پومپیو کا افغان طالبان سے امن عمل پر تبادلہ خیال

وزیراعظم عمران خان نے دونوں ممالک کے درمیان مختلف ادارہ جاتی میکانزمز کا حوالہ دیتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم افغانستان۔پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام (اے پی اے پی پی ایس) کے اگلے اجلاس کے جلد از جلد انعقاد کے خواہاں ہیں'۔

واضح رہے کہ یہ گفتگو اس لیے بھی اہم تصور کی جارہی تھی کیونکہ چمن / اسپن بولدک بارڈر کراسنگ پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان سرحدی تصادم کے تین دن بعد ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ افغان طالبان نے 29 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر 3 دن کے لیے جنگ بندی ہوگی، جس کے جواب میں افغان حکومت نے بھی جنگ بندی کا اعلان کردیا تھا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر مذکورہ پیش رفت سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'عید الاضحیٰ کے مذہبی تہوار کے موقع پر طالبان کی جانب سے کارروائیاں نہیں کی جائیں گی'۔

ترجمان افغان طالبان نے واضح کیا تھا کہ جنگ بندی کا آغاز جمعے کے روز سے شروع ہوگا جو 3 روز تک نافذ العمل ہوگا۔

اپنے پیغام میں انہوں نے جنگجوؤں کو ہدایت کی تھی کہ وہ عید کے تین دن اور تین راتوں کے دوران 'دشمن' کے خلاف کارروائیوں سے گریز کریں۔

ترجمان طالبان نے خبردار کیا تھا کہ 'اگر اس دوران دشمن نے حملہ کیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت، طالبان کا عید الاضحیٰ پر جنگ بندی کا اعلان

طالبان کے اعلان کے بعد افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا تھا کہ حکومت نے تمام سیکیورٹی فورسز کو سیز فائر کا حکم دے دیا۔

صدیق صدیقی نے کہا تھا کہ 'افغان حکومت، طالبان کی جانب سے عید الاضحیٰ پر جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام سیکیورٹی فورسز کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ عید کے تیسرے روز افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں جیل پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جہاں کم ازکم 29 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ جیل سے کئی قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ افغان جیل پر کیے گئے حملے کے دوران سیکیورٹی فورسز اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔

صوبہ ننگرہار کے ہسپتال کے ترجمان ظہیر عدیل نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار سمیت اب تک 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ گورنر کے ترجمان نے ہلاکتوں کی تعداد 21 بتائی، جس میں بعد ازاں اضافہ ہوا۔

ظہیر عدیل نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا کیونکہ 40 سے زائد زخمیوں کی حالت اس وقت تشویش ناک تھی۔

امریکا-طالبان امن معاہدہ

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان

جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیئیں۔

تاہم اسی شب طالبان نے قندوز میں حملہ کیا، اس حوالے سے افغان وزارت دفاع نے کہا کہ حملے کو ناکام بنادیا گیا اور طالبان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں