کاروباری اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی ہے، سروے

اپ ڈیٹ 06 اگست 2020
رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ اعلیٰ افراط زر اور شرح سود، روپے کی قدر میں کمی اور کورونا لاک ڈاؤن سمیت غیر یقینی صورتحال ہیں۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ اعلیٰ افراط زر اور شرح سود، روپے کی قدر میں کمی اور کورونا لاک ڈاؤن سمیت غیر یقینی صورتحال ہیں۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: اعلیٰ افراط زر اور شرح سود، روپے کی قدر میں کمی اور معاشی استحکام کے پروگرام کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن اور غیر یقینی صورتحال سمیت متعدد عوامل کی وجہ سے پاکستان میں مجموعی کاروباری اعتماد میں گزشتہ سال کمی آئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کی جانب سے کیے گئے بزنس کانفیڈنس انڈیکس (بی سی آئی) سروے - ویو 19 میں کیا گیا۔

او آئی سی سی آئی نے اعداد و شمار کے ساتھ جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ 'پاکستان میں مجموعی طور پر کاروباری اعتماد اسکور (بی سی ایس) منفی 50 فیصد پر ہے جو اگست میں کیے گئے ویو 18 سروے میں پہلے ہی 45 فیصد کے منفی اسکور سے 5 فیصد مزید کم ہے'، اس کمی نے 'عام طور تمام شعبوں میں اور خاص طور پر مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے میں مایوسی کی عکاسی کی ہے'۔

مزید پڑھیں: چھوٹا کاروبار امدادی پیکج: 'تاجروں کے 3 ماہ کے بجلی کے بل حکومت ادا کرے گی'

مینوفیکچرنگ سیکٹر کا کاروباری اعتما، سروے کے رسپنڈنٹس (جواب دہندگان) میں تقریبا 42 فیصد ظاہر ہوا، جو گزشتہ 6 ماہ کے مقابلے میں 5 فیصد کم ہوا اور وہ ویو 18 میں منفی 43 فیصد کے مقابلہ میں منفی 48 فیصد ہوگیا۔

29 فیصد رسپانڈنٹس کے مطابق خدمات کے شعبے کے بی سی ایس ویو 18 کے منفی 49 فیصد سے مزید کم ہوکر منفی 59 فیصد ہوگئے۔

ریٹیل اور ہول سیل تجارت کے بی سی ایس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دونوں سروے میں منفی 44 فیصد رہے۔

او آئی سی سی آئی نے بتایا کہ یہ سروے مئی سے جون 2020 کے دوران پورے پاکستان میں کیا گیا تھا اور جس پر کورونا وائرس کو روکنے کے اقدامات بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوئے جس نے تقریبا تمام کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثر ڈالا ہے۔

او بی سی سی آئی کے صدر ہارون رشید نے کہا کہ 'اس وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والا زبردست خوف ایسے وقت میں سامنے آیا جب ملک پہلے ہی سنہ 2019 کے آغاز سے ایک اہم معاشی استحکام کے پروگرام کی زد میں تھا جس ست روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی تھی (گزشتہ 12 ماہ میں 38 فیصد کمی)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی پالیسی شرح اعلیٰ تھی (دسمبر 2019 میں زیادہ سے زیادہ 13.25 فیصد تک) اور اس کے نتیجے میں اعلی افراط زر نے بھی کاروبار پر اثرات ڈالے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کی وجہ سے گزشتہ دو سروے میں کاروباری اعتماد کا اسکور خراب ہونا، جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے باعث تشویش ہے، حیرت انگیز بات نہیں در حقیقت موجودہ چیلنجنگ صورتحال میں قابل فہم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چھوٹے کاروبار کی مالی معاونت بڑھانے کیلئے رجسٹری کا آغاز

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا ہے جو موقع کے ساتھ روشن اور بدظن دونوں نظر آتے ہیں کیونکہ ملک آہستہ آہستہ کورونا بحران سے نکل رہا ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ ملک میں ترقی کی نمایاں صلاحیت موجود ہے اور حکومت اور او آئی سی سی آئی دونوں کو معاشی ترقی کی مثبت رفتار پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ چھ مہینوں کے دوران رسپانڈنٹس کی اکثریت کو اپنی فروخت کے حجم، منافع اور سرمایہ کاری پر ریٹرنز میں کمی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے میں ناکام رہے۔ تاہم آئندہ چھ ماہ کے لیے سروے کے جواب دہندگان نسبتا زیادہ مثبت نظر آئے۔

تبصرے (0) بند ہیں