لبنان میں حکومت مخالف احتجاج، پولیس کی مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ

اپ ڈیٹ 10 اگست 2020
لبنان کے شہر بیروت میں مظاہرے جاری ہیں۔ فوٹو:رائٹرز
لبنان کے شہر بیروت میں مظاہرے جاری ہیں۔ فوٹو:رائٹرز

گزشتہ ہفتے کے تباہ کن دھماکے کے نتیجے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوسرے دن لبنانی پولیس نے بیروت میں پارلیمنٹ کے قریب سڑک بند کرنے اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے لیے آنسو گیس فائر کی۔

ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ پارلیمنٹ اسکوائر کے داخلی دروازے پر آگ لگ گئی جب مظاہرین نے کارڈن آف کیے گئے علاقے میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔

مظاہرین نے وزارت ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ کے دفتر کو بھی توڑ دیا۔

دھماکے اور مہینوں سے جاری معاشی بحران کے باعث لبنان میں پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کی وجہ سے دو حکومتی وزرا نے یہ کہتے ہوئے کہ حکومت اصلاحات میں ناکام رہی ہے، مستعفی ہوگئے۔

منگل کے روز بیروت میں 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے دھماکے میں 158 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جس کے بعد عوام نے حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔

رائٹرز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اسکوائر اور قریبی واقع شہدا اسکوائر پر ہزاروں افراد اکٹھے ہوئے جن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں، پولیس آرمر پہنے ہوئے اور لاٹھیوں سے لیس تھی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بیروت پر لبنان کی وزیر اطلاعات کی عوام سے معذرت، عہدے سے مستعفی

مظاہرے میں شریک ولید جمال نے ملک کے سب سے بااثر ایران کی حمایت یافتہ مسلح گروہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے ان رہنماؤں کو ہماری مدد کرنے کے بہت سارے مواقع دیے اور وہ ہمیشہ ناکام رہے، ہم ان سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کو، کیونکہ یہ ایک مسلح تنظیم ہے جس کے حکومت میں وزرا بھی ہیں اور یہ اپنے ہتھیاروں سے لوگوں کو ڈرا رہی ہے'۔

ملک کے اعلیٰ مسیحی پادری پیٹریاچ بیچارا بوٹروس الرائے نے کہا کہ کابینہ کو استعفی دینا چاہیے کیونکہ وہ 'اپنے طرز حکمرانی کو تبدیل نہیں کرسکتی'۔

انہوں نے کہا کہ 'کسی رکن پارلیمنٹ یا وزیر کا استعفیٰ کافی نہیں ہے، پوری حکومت کو استعفی دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک کی بحالی میں مدد کرنے سے قاصر ہے'۔

ڈیمیانوس کٹر کے مستعفی ہونے کے بعد وزیر اطلاعات منال عبدالصمد نے استعفیٰ دیا۔

بیروت کے وسط میں ہفتے کے روز پرتشدد مناظر میں عوام کا غم و غصہ دیکھا گیا، یہ احتجاج اکتوبر کے بعد ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ تھا جب ہزاروں افراد بدعنوانی اور بد انتظامی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

دس ہزار سے زائد افراد شہدا اسکوائر پر جمع ہوئے اور پارلیمنٹ جانے والی سڑک پر لگی رکاوٹیں توڑنے کی کوشش کیں، چند مظاہرین نے سرکاری وزارتوں اور لبنانی بینکوں کی ایسوسی ایشن پر دھاوا بولا۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ کی وجہ سے یہ سڑک جنگ کے میدان کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ریڈ کراس کے مطابق 170 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

'حکومت تبدیل کرو'

55 سالہ ریٹائرڈ فوجی افسر یونس فلائتی نے کہا کہ 'پولیس نے مجھ پر فائر کیا لیکن یہ اس وقت تک ہمیں مظاہرے سے نہیں روک سکتے جب تک ہم حکومت کو اوپر سے نیچے تک تبدیل نہیں کردیتے'۔

یہ بھی پڑھیں: بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی، 5 ہزار زخمی

قریب ہی مکینک صابر جمالی شہدا اسکوائر میں لکڑی کے فریم سے منسلک ایک رسی کے نزدیک بیٹھ گیا جس کا مطلب لبنانی رہنماؤں کو استعفی دینے یا پھانسی کا سامنا کرنے کا علامتی انتباہ تھا۔

- فوٹو:رائٹرز
  • فوٹو:رائٹرز

انہوں نے دوبارہ احتجاج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم پر ظلم کرنے والے ہر رہنما کو پھانسی دی جانی چاہیے'۔

وکیل مایا حبلی نے دھماکے میں منہدم ہونے والے بندرگاہ کا سروے کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کو سڑکوں پر ہی سونا چاہیے اور اس کے دستبردار ہونے تک حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہیے'۔

ماریون شہادی نے کہا کہ ‘میں نے کویت میں پیسے بچانے اور لبنان میں گفٹ شاپ بنانے کے لیے صفائی کا کام 15 سال تک کیا اور اس دھماکے نے میری 15 سال کی محنت ایک لمحے میں ختم کردی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک ہمارے رہنما نہیں جاتے کچھ بھی نہیں بدلے گا'۔

بیروت دھماکے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، ایران

ایران کا کہنا تھا کہ ممالک کو گزشتہ ہفتے بیروت میں ہونے والے دھماکے پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور امریکا، لبنان کے خلاف عائد پابندیاں ختم کرے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موساوی نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ 'دھماکے کو سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، دھماکے کی وجوہات کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر امریکا، لبنان کی مدد کی پیش کش کے بارے میں ایماندار ہے تو اسے پابندیاں ختم کرنی چاہئیں'۔

واضح رہے کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے وسط میں واقع ساحلی ویئر ہاؤس میں چند روز قبل ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 158 سے تجاوز کر گئی ہے اور 5 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ریسکیو اور ایمرجنسی ادارے ملبے کے ڈھیر سے لاشیں نکال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے باعث 2 لاکھ 50 افراد بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ گھروں کا سامان سڑکوں میں بکھر گیا ہے۔

یہ معاشی بحران سے دوچار اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نبردآزما بیروت میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہونے والا سب سے بڑا دھماکا ہے۔

صدر مشعل عون نے کہا تھا کہ 2 ہزار 750 ٹن امونیم نائٹریٹ کا فرٹیلائزر اور بموں میں استعمال کیا گیا جسے بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے چھ سال سے پورٹ پر ذخیرہ کیا جا رہا تھا اور یہ عمل ناقابل قبول ہے۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کو بیرون شہر سے باہر لے جایا جا رہا ہے کیونکہ بیروت کے ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ ملک کے جنوبی اور شمالی علاقوں سے تمام ایمبولینسز کو طلب کر لیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دھماکا ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت 3 دن بعد ہی 2005 بم دھماکوں میں ملوث حزب اللہ کے چار ملزمان کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والی تھی۔

2005 میں بیروت میں ٹرک دھماکے میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور وہ دھماکا بھی ساحل سے محض دو کلومیٹر دور ہوا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں