'موت لمحے کی صدا، زندگی عمروں کی پکار' کے خالق راحت اندوری سپرد خاک

اپ ڈیٹ 12 اگست 2020
راحت اندوری کی تدفین آبائی شہر میں کی گئی—فوٹو: نئی دنیا
راحت اندوری کی تدفین آبائی شہر میں کی گئی—فوٹو: نئی دنیا

کورونا کا شکار ہوکر دل کے دورے پڑنے سے 11 اگست کو وفات پاجانے والے اردو کے معروف شاعر راحت اندوری کو آبائی شہر میں سپرد خاک کردیا گیا۔

راحت اندوری 11 اگست کی شام کو ریاست مدھیا پردیش کے شہر اندور کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پاگئے تھے۔

انہیں کورونا کی علامات ظاہر ہونے اور نمونیا بخار ہونے پر 11 اگست کی صبح کو ہی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

راحت اندوری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا تاہم ان کے اہل خانہ اور ڈاکٹرز کے مطابق وہ ذیابطیس، دل کے عارضے اور نمونیا سمیت دیگر بیماریوں کا بھی شکار تھے۔

طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں 11 اگست کو ہی انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں رکھا گیا تھا، جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

ابتدائی طور پر بتایا گیا تھا کہ راحت اندوری خون کی ترسیل میں خلل پڑنے کے بعد دل اور پھیپھڑوں کے فیل ہونے کے باعث چل بسے تاہم بعد ازاں تصدیق کی گئی تھی کہ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔

راحت اندوری کی عمر 70 سال تھی—فوٹو: ٹوئٹر
راحت اندوری کی عمر 70 سال تھی—فوٹو: ٹوئٹر

چوں کہ راحت اندوری کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا، اس لیے ان کی تدفین کورونا پروٹوکولز کے تحت انتہائی سخت حفاظتی انتظامات اور انتہائی کم افراد کی موجودگی میں کی گئی۔

بھارتی خبر رساں ادارے ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) کے مطابق راحت اندوری کی تدفین کورونا پروٹوکول کے تحت کی گئی۔

راحت اندوری کی تدفین ان کے آبائی شہر اندور کے معروف قبرستان چھوٹی کھجرانی میں کی گئی اور وہیں ہی ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔

راحت اندوری کی نماز جنازہ میں ان کے بیٹوں اور خاندان کے دیگر قریبی افراد سمیت انتہائی اہم اور قریبی شخصیات نے شرکت کی اور نماز میں لوگوں کی تعداد کم سے کم رکھی گئی۔

راحت اندوری کی میت کو کورونا پروٹوکول کے تحت ہسپتال کے ایمبولینس کے ذریعے قبرستان لایا گیا تھا۔

کورونا پروٹوکول کے تحت ان کی نماز جنازہ میں کم افراد نے شرکت کی—فوٹو: نئی دنیا
کورونا پروٹوکول کے تحت ان کی نماز جنازہ میں کم افراد نے شرکت کی—فوٹو: نئی دنیا

ان کی وفات پر بھارت کے وزیر اعظم، صدر اور ریاست مدھیا پردیش کے وزیر اعلیٰ سمیت اہم سیاسی، سماجی، ادبی و شوبز شخصیات نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو بھارت اور اردو ادب کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'مجھے وہ چھوڑ گیا یہ کمال ہے اس کا ' راحت اندوری انتقال کرگئے

راحت اندوری نے اگرچہ ہندی سمیت بھارت کی دیگر زبانوں میں بھی شاعری کی تاہم ان کا شمار اردو کے معروف شاعروں میں ہوتا تھا اور ان کے شعر بھارت میں حکومت مخالف مظاہروں میں بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔

راحت اندوری بھارت کی ریاست مدھیا پردیش کے شہر اندور میں ایک مل مزدور رفعت اللہ قریشی کے ہاں پیدا ہوئے تھے اور ان کا اصلی نام راحت قریشی ہے اور انہوں نے کم عمری میں ہی شاعری کرنا شروع کی۔

راحت اندوری کی نظموں، غزلوں اور مختلف اشعار کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور انہوں نے 40 سے زائد بولی وڈ فلموں کے لیے درجنوں مقبول گیت لکھے۔

راحت اندوری کو عصر حاضر کا شاعر بھی کہا جاتا تھا—فوٹو: ٹوئٹر
راحت اندوری کو عصر حاضر کا شاعر بھی کہا جاتا تھا—فوٹو: ٹوئٹر

انہیں بھارت میں عصر حاضر کا شاعر بھی کہا جاتا ہے اور وہ بھارت میں اقلیتوں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر بھی شاعری کرتے رہے۔

راحت اندوری سے متعلق مشہور ہے کہ طاقت کے آگے جھکتے اور نہ ہی دولت کے آگے بکتے تھے۔

راحت اندوری نے 'گھاتک، عشق، بیگم جان، منا بھائی ایم بی بی ایس، مرڈر، ناراض، جنم، میں تیرا عاشق اور خوددار' سمیت 40 سے زائد بولی وڈ فلموں کے لیے گانے لکھے۔

ان کے مقبول گیتوں میں اداکار گووندا اور کرشمہ کپور پر'خودار' فلم کا گانا 'تم سا کوئی پیارا، کوئی معصوم نہیں' اور 'گھاتک' کا ممتا کلکرنی پر فلمایا گیا گانا 'کوئی جائے تو لے آئے' سمیت دیگر شامل ہیں۔

راحت اندوری نے ہندی سمیت اردو میں بھی غزلیں لکھیں جب کہ وہ دیگر بھارتی مقامی زبانوں میں بھی شاعری پر طبع آزمائی کرتے رہے۔

راحت اندوری کی غزلوں کے کئی مصرع مشہور تھے جن میں سے 'مجھے وہ چھوڑ گیا یہ کمال ہے اس کا، ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دوں گا اسے' بھی تھا۔

ان کی وفات کے بعد ٹوئٹر پر لوگوں نے انہیں خرج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے شعر ہی لکھے۔

راحت اندوری کی موت کے بعد ان کی غزلوں کے ٹکڑوں اور اشعار کو سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔

کچھ افراد نے انہیں ان کی غزل کے مصرع 'گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے، اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے، موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار، میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے' لکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

تو کئی افراد نے ان کی معروف غزل 'لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں، یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے، سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں، کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے' لکھ کر خراج پیش کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں