بی آر ٹی پشاور، 6 ماہ کا وعدہ 3 سال میں مکمل

اپ ڈیٹ 13 اگست 2020
اس منصوبے کا افتتاح وزیراعظم کریں گے—فوٹو: عبدالمجید گورایا
اس منصوبے کا افتتاح وزیراعظم کریں گے—فوٹو: عبدالمجید گورایا

صوبہ خیبرپختونخوا خاص طور پر پشاور کے شہریوں کا طویل انتظار ختم ہونے جارہا ہے اور تقریباً 3 سال بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے تیار کیے جانے والے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ کا افتتاح بالآخر آج کردیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان آج (جمعرات) کی سہ پہر اس تھرڈ جنریشن ماس ٹرانزٹ سسٹم کا افتتاح کیا۔

تاہم جہاں آج اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا وہیں اس کے آغاز کی تاریخ کئی مرتبہ تبدیل کی گئی جبکہ اس منصوبے کو تحقیقات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

بی آر ٹی منصوبہ

اگر اس منصوبے کی بات کریں تو اس منصوبے کو آپریٹ کرنے والی حکومتی ٹرانس پشاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر فیاض خان کے مطابق بی آر ٹی ایک تھرڈ جنریشن منصوبہ ہے جس کا مرکزی کوریڈور چمکنی سے کاراخانو کراسنگ تک 27 کلو میٹر طویل ہے جبکہ شہر کے مختلف حصوں سے 5 آف کوریڈور روٹس بھی مرکزی کوریڈور سے ملتے ہیں۔

ان کے مطابق چارسدہ روڈ پر کوہاٹ اڈا شاہ عالم آف کوریڈور لنک 18 کلومیٹر طویل ہے جبکہ چمکنی پشتخۃ چوک سیکشن 19 کلومیٹر تک طویل ہے، اس کے علاوہ 3 دیگر روٹس حیات آباد اور کارخانو کراسنگ کے مختلف حصوں کو آپس میں ملاتےہیں۔

منصوبے میں سائیکل کیلئے بھی سسٹم بنایا گیا ہے—فوٹو: ٹوئٹر
منصوبے میں سائیکل کیلئے بھی سسٹم بنایا گیا ہے—فوٹو: ٹوئٹر

ان کے مطابق 27 کلومیٹر طویل بی آر ٹی کوریڈور میں 900 میٹر کے فاصلے پر 30 بی آر ٹی اسٹیشن بنائے گئے ہیں، مزید یہ کہ 3 ڈپو اور اسٹیجنگ کی سہولت زیر تعمیر ہے۔

ٹرانس پشاور سی ای او کا کہنا تھا کہ کمپنی کے پاس 200 ڈیزل ہائبرڈ ایئرکنڈیشن بسز کا بیڑا تھا جو مرکزی اور آف کوریڈور روٹس کا 59 کلومیٹر کا حصہ کور کرے گا۔

یہی نہیں بلکہ اس منصوبے میں سائیکل شیئرنگ سسٹم بھی بنایا گیا ہے جبکہ اس کے لیے 360 بسز خریدی گئی ہیں۔

سی ای او کے مطابق بی آر ٹی منصوبے میں ایکسپریس سروس بھی ہے جو مرکزی کوریڈور پر صرف 7 اسٹیشن پر اسٹاپ کرے گی جبکہ ریگولر بس سروس کی تمام اسٹیشن پر دستیابی ہوگی۔

کرائے کی بات کی جائے تو فیاض خان کے مطابق مسافروں کو ہر 5 کلومیٹر پر 10 روپے ادا کرنا ہوں گے جبکہ ہر 5 کلومیٹر کے لیے کرایہ 5 روپے تک بڑھ جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مسافر کو چمکنی سے کارا خانو کراسنگ تک سفر کی لاگت 35 روپے پڑے گی۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رہائشیوں میں 10 ہزار زیڈ یو بی آر ٹی کارڈز بھی فری تقسیم کیے گئے ہیں۔

منصوبے کا آغاز

پشاور میں بننے والے اس منصوبے کا آغاز پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں گزشتہ ادوار یعنی 2017 میں ہوا تھا۔

اکتوبر 2017 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختنوخوا پرویز خٹک نے اس منصوبے کو شروع کیا تھا، ساتھ ہی 49 ارب روپے کی لاگت سے 6 ماہ یعنی اپریل 2018 میں اس کے مکمل ہونے کی تاریخ دی گئی تھی۔

تاہم اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلی اور نئی چیزوں کے شامل کرنے کی وجہ سے نہ صرف منصوبے کی تکمیل کی پہلی ڈیڈلائن کو گزار دیا بلکہ اس کی لاگت میں بھی 17 ارب روپے کا اضافہ کردیا اور اسے 66 ارب 43 کروڑ روپے تک پہنچا دیا۔

اس منصوبے کو اپریل 2018 میں مکمل ہونا تھا—فائل فوٹو: شاہزیب بٹ
اس منصوبے کو اپریل 2018 میں مکمل ہونا تھا—فائل فوٹو: شاہزیب بٹ

اس کے باوجود منصوبے کے منیجر اس کے آغاز کی تاریخ میں کئی مرتبہ تبدیل کرتے رہے اور اسے پہلے 2018 میں 20 مئی سے 30 جون اور پھر 31 دسمبر کردیا گیا تاہم جب دسمبر 2018 میں بھی اس کا افتتاح نہیں ہوا تو پھر 2019 میں 23 مارچ کی تاریخ دی گئی جسے بعد میں جون 2020 کردیا گیا۔

تاہم ڈیزائن اور دیگر مسائل کی وجہ سے جون 2020 کی دی گئی تاریخ پر بھی اس منصوبے کا آغاز نہیں ہوسکا۔

تحقیقات

پشاور بی آر ٹی کے اس منصوبے میں نہ صرف تاخیر ہوئی بلکہ اسے تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچا۔

ابتدا میں بی آر ٹی کا معاملہ پشاور ہائیکورٹ پہنچا جس نے بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ کرپشن پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو تحقیقات کا حکم دیا تاہم ستمبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اسے روکنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں دسمبر 2019 میں پشاور ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کو مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالتی احکامات کی روشنی میں ایف آئی اے کی 5 رکنی ٹیم قائم کی گئی جس نے رواں سال جنوری کے آخر میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔

تاہم فروری 2020 میں سپریم کورٹ نے منصوبے سے متعلق کی جانے والی تحقیقات روک دیں۔

جس کے بعد مئی 2020 میں یہ تاریخ سامنے آئی کہ جون میں اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے گا تاہم اس تاریخ پر عمل نہ ہوسکا اور اب 2 سال 10 ماہ بعد باقاعدہ طور پر یہ منصوبہ شہریوں کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں