اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کی جانب سے عثمان یوسف مبین کو بطور چیئرمین نیشنل ڈیٹابیس اور رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) تعینات کرنے کے لیے مقررہ معیار کو تبدیل کیا گیا۔

یہ بات اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2018 میں مذکورہ نشست کے لیے کوششیں کرنے والے ناکام امیدواروں کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سامنے آئی۔

درخواست گزاروں کے وکیل حافظ عرفات احمد کی جانب سے چیئرمین نادرا کے عہدے کے انتخاب کے 'اصل' معیار سے متعلق دستاویزات پیش کیں۔

ان دستاویزات کے مطابق پی ایچ ڈی ڈگری کے لیے 15 مارکس جبکہ غیرملکی اور ملکی جامعات سے ماسٹرز ڈگری کے لیے بالترتیب 12 اور 9 مارکس رکھے گئے تھے، مزید یہ کہ متعلقہ شعبے میں تجربے کے لیے 40 مارکس مختص تھے۔

مزید پڑھیں: سابق چیئرمین نادرا دہری شہریت کیس میں بری

درخواست گزاروں کے وکیل کے مطابق اس معیار کے تحت یوسف مبین صرف 30 نمبر حاصل کرسکتے تھے اور ان کا نام میرٹ لسٹ میں پانچویں نمبر پر تھا جبکہ 36 نمبروں کے ساتھ ضیا نادر کی پہلی پوزیشن تھی۔

تاہم وکیل کے مطابق حکام نے اس وقت معیار کو تبدیل کردیا، پی ایچ ڈی ڈگری کے لیے نمبروں کو 15 سے کم کرکے 5 کردیا گیا جبکہ جن کے پاس ماسٹر کی ڈگری تھی ان کے نمبر 12 سے بڑھا کر 15 کردیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ یوسف مبین کے پاس ماسٹر ڈگری تھی۔

اس نئے معیار کے تحت یوسف مبین نے سب سے زیادہ (55) نمبرز حاصل کرلیے اور ان کا نام میرٹ لسٹ میں سب سے اوپر آگیا۔

ایڈووکیٹ عرفات احمد کا کہنا تھا کہ حکام نے نوکری کے لیے دیگر ضروری چیزوں کو بھی تبدیل کیا تاکہ اس یوسف مبین کو کسی بھی قیمت پر منتخب ہونے کو یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے اعتراض کیا کہ یوسف مبین کا بطور چیئرمین نادرا تقرر غیرقانونی تھا کیونکہ وہ اس جاب کے لیے قابل نہیں تھے۔

اس موقع پر نادرا کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ تقرر قانونی تھا کیونکہ یوسف مبین قابل اور اس عہدے کے لیے اہل تھے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یوسف مبین کا تقرر سلیکشن بورڈ کے مکمل انٹرویو کے بعد ہوا، وہ دیگر امیدواروں کے مقابلے میں عہدے کے لیے زیادہ تجربہ کار اور قابل تھے۔

نادرا کے وکیل نے ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بغیر کسی اشتہار کے چیئرمین نادرا کے عہدے پر امیدوار کا تقرر کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: چیئرمین نادرا کے شناختی کارڈ مراکز پر مزید چھاپے

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ یوسف مبین زیادہ تجربہ کار اور قابل تھے جب ان کا موازنہ قومی میڈیا میں عہدے کےلیے دیے گئے اشتہار میں درج معیار سے کیا گیا، 'اسی لیے انہیں دیگر امیدواروں کے بجائے اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے چنا گیا'۔

وکیل کے مطابق سلیکشن بورڈ کی جانب سے یوسف مبین کا انٹرویو کیا گیا تھا اور ان کے نام کی منظوری وفاقی کابینہ نے بھی دی تھی۔

اس موقع پر وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود نے کہا کہ چیئرمین نادرا کے عہدے کے لیے عمر کی حد 55 سال تھی جبکہ یوسف مبین 38 برس کے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تقرر قانون کے مطابق عہدے کے لیے طے شدہ تجربے اور تعلیم کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔


یہ خبر 14 اگست 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں