وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق نیا بیانیہ پوری دنیا نے تسلیم کیا لیکن وزارت خارجہ اپنے ہی وزیرا عظم کا پیغام اس طاقت کے ساتھ پیش نہیں کرسکا جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا۔

اسلام آباد میں منعقدہ 'یوتھ فورم فار کشمیر' کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندی کو نازی ازم کے ساتھ ملایا، جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا اور انٹرنیشنل میڈیا میں قابل قبول ہوگیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں انکاؤنٹر میں قتل کیے گئے 3 نوجوان مزدور تھے، اہلخانہ

مسئلہ کشمیر پر انہوں نے کہا کہ محض سیاسی یا سفارتی نوعیت کا بیان دینے سے کوئی کامیابی میسر نہیں ہوگی اس لیے کلچر آف ریززٹنس (شاعری، مصوری سمیت فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں) کے ذریعے بھی کشمیر کاز پر عالمی برادری اور سول سوسائٹی کی توجہ مبذول کرانی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری کے پرانے طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں، امریکی صدر ساری ڈپلومیسی ٹوئٹر پر کر رہا ہے، لیکن ہمارے وزرا اپنے پرتعیش ہوٹلوں سے باہر نہیں جاتے، اپنے کپڑوں پر شل نہیں پڑنے دیتے'۔

شیریں مزاری نے کہا کہ 'ہم نے کشمیریوں کو مایوس کیا، ہم نے اپنے وزیراعظم عمران خان کو مایوس کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہماری وزارت خارجہ نازی ازم اور ہندتوا کے تعلق کو ہی بتا دیتی کہ یہ دنوں کس طرح ایک ہیں تو بہت ساری چیزیں واضح ہوجاتیں'۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ہماری وزارت نے ڈیجیٹل فلم سیریز کا سلسلہ شروع کیا جس میں پہلی فلم 'فراد' دیکھائی گئی جو کشمیر کے موضوع پر تھی اور پہلی مرتبہ اور پہلے دن ہمارے فیس بک پیج پر صارفین کی تعداد 5 لاکھ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'بھارت کے اتحادی ممالک کشمیری ریاست کی بحالی کیلئے اس پر دباؤ ڈالیں'

انہوں نے کہا کہ جب فنون لطیفہ کے ذریعے کسی موضوع کو پیش کیا جاتا ہے تو معاملہ ایک جہت سے نکل کر کثیر الجہت ہوجاتا ہے۔

وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ کشمیر پر پالیسی سازوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کشمیر کی ثقافت کو اجاگر کریں لیکن ہماری روایتی سفارتکاری یہ مشورہ ہضم نہیں کرسکی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کوئی ایک حوالہ دیں جب ہمارے سفارتکاروں نے بین الاقوامی فورمز میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی اکتوبر 2000 کی جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قرارداد کا تذکرہ کیا ہو۔

شیریں مزاری نے کہا کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا لیکن ہمارے سفارتکاروں نے اپنی ہزاروں تقاریر میں اقوام متحدہ کی قرارداد کا حوالہ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں محض مسئلہ کشمیر پر ایک تقریر کرنا ناکافی ہے اس لیے سفارتکاری کثیرالجہت ہونی چاہیے۔

مزیدپڑھیں: جنرل اسمبلی کے نومنتخب صدر کی وزیر اعظم سے ملاقات، مقبوضہ کشمیر میں کردار ادا کرنے پر زور

وفاقی وزیر نے بتایا کہ ہماری وزارت نے انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کے 18 مندوبین کو مراسلہ لکھا لیکن وزارت خارجہ کی جانب سے مذکورہ مراسلوں پر آئندہ کا لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہم نے اقوام متحدہ کو بھی مراسلہ لکھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے 'انسانی بنیادوں پر کوریڈور' بنادیں جہاں خوراک اور ادویات پہنچائی جائے، جس طرح جنگ زدہ ملک شام میں بنایا گیا اور ساتھ ہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کو درخواست کی کہ اس بابت اپنا کردار ادا کریں لیکن کچھ نہیں کیا گیا۔'

وفاقی وزیر نے کہا کہ ماضی میں متعدد ایسی مثالیں ملتی ہے جب انقلاب کے دوران ثقافتی اقدار کے ذریعے بھی اظہار خیال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈپلومیسی کے نئے ٹولز استعمال کرنے ہوں گے، میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں کشمیر کی ثقافت بطور مزاحمت اجاگر کرنی چاہیے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ 'مجھے غصہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا کشمیر پر مضبوط بیانیہ بیوروکریسی کیوں آگے لے کر نہیں جارہی ہے، مجھے بیوروکریسی سے شکایت ہے، ہر جگہ بیوروکریٹک مشکلات ہیں، یہ قابل تنقید ہے اور میں تنقید کر رہی ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں