اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران پر ہتھیاروں کی عالمی پابندی میں توسیع کی امریکی کوشش مسترد کردی گئی۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس میں واشنگٹن نے تہران پر غیر معینہ مدت تک عالمی پابندی میں توسیع کی قرارداد پیش کی جس کو صرف ڈومینیکن ریپبلک کی حمایت حاصل رہی۔

واضح رہے کہ امریکا کو قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم 10 ووٹ درکار تھے۔

مزید پڑھیں: ایران نے آبنائے ہرمز کے قریب بحری جہاز کو قبضے میں لیا، امریکا کا الزام

فرانس، جرمنی اور برطانیہ سمیت 15 رکنی باڈی کے 11 اراکین نے ووٹ دینے سے گریز کیا۔

روس اور چین نے 13 سالہ پابندی میں توسیع کی شدید مخالفت کی۔

واضح رہے کہ یہ پابندی ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مابین 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کے تحت 18 اکتوبر کو ختم ہونے والی ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی ناکامی سے متعلق مختصر بیان جاری کیا۔

انہوں نے قرارداد کی ناکامی کو سلامتی کونسل کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے دفاع میں مذکورہ فیصلہ ناقابل معافی ہے۔

مزید پڑھیں: ایران امریکا تصادم، کیا خطرہ ٹل گیا؟

مائیک پومپیو نے کہا کہ اسرائیل اور 6 خلیجی ممالک نے ایران پر عالمی ہتھیاروں سے متعلق پابندی میں توسیع کی حمایت کی کیونکہ وہ جانتے ہیں پابندی ختم ہونے کے بعد تہران انتشار اور تباہی پھیلائے گا۔

انہوں نے کہا کہ لیکن سلامتی کونسل نے اس معاملے کو نظر انداز کیا۔

اقوام متحدہ میں چین کے سفیر جانگ جون نے ایک بیان میں کہا کہ 'ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوگیا ہے کہ یکطرفہ نظام کی کوئی حمایت نہیں کرے گا اور دھونس ناکام ہوگی۔'

دوسری جانب ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی ناکامی پر کہا کہ 'امریکا ذلت کے ساتھ اس سازش میں ناکام رہا'۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے ٹوئٹ میں کہا کہ اقوام متحدہ کی 75 برس کی تاریخ میں امریکا کبھی بھی اتنا تنہا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'تمام دوروں اور دباؤ کے باوجود امریکا صرف ایک چھوٹے سے ملک کو ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کرسکا'۔

اس سے قبل 11 نومبر 2019 کو ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی پی او اے) پر مسلسل عمل درآمد کے نتیجے میں 2020 تک ایران پر موجود اسلحہ کی پابندی ختم ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: امریکا، ایران کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات مسترد

انہوں نے کہا تھا کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد جاری رکھنے سے 'ہم اگلے سال اقتصادی سلامتی کا ایک ہدف حاصل کرلیں گے'۔

یاد رہے کہ 2015 میں امریکا، جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین نے ایران کے ساتھ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جس کے بدلے میں ایران پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ایران کے ساتھ ہوئے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کی تھی۔

واشنگٹن میں اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا نے ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور امریکا پابندیاں دوبارہ بحال کرے گا۔

دوسری جانب جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین اس معاہدے کو بحال رکھنا چاہتے ہیں جس کے تحت ایران کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: امریکا، ایران کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات مسترد

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ یورپ سے اپنی امیدیں نہ جوڑے کیونکہ تہران کے ساتھ عالمی قوتوں سے جوہری معاہدے کے تخلیق کار امریکا کے دباؤ میں ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایران ' بغیر کسی حد کے' یورینیم افزودگی کو دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں ایرانی اٹامک آرگنائزیشن کو مستقبل میں کارروائیوں کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کرچکا ہوں اس لیے اگر ضروری ہوا تو ہم بغیر کسی حد کے افزودگی کا عمل شروع کرسکتے ہیں'۔

ایرانی صدر نے کہا تھا کہ 'ہم اس فیصلے سے قبل کئی ہفتے انتظار کریں گے، ہم اپنے دوستوں اور جوہری معاہدے کے اتحادیوں سمیت دیگر سے بات کریں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں