مغربی کنارے کی اسرائیل میں انضمام کی فوری منظوری نہیں دیں گے، امریکا

18 اگست 2020
جیرڈ کشنر نے کہا کہ امارات-اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز ہے—فوٹو:رائٹرز
جیرڈ کشنر نے کہا کہ امارات-اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز ہے—فوٹو:رائٹرز

وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر نے کہا ہے کہ امریکا کچھ عرصے تک اسرائیل کے مغربی کنارے کے انضمام کے منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نےکہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے اور خطے میں امن کی کوشش کے پیش نظر امریکا کچھ وقت کے لیے اسرائیل کو انضمام کی منظوری نہیں دے گا۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت سمیت دیگر شعبوں میں تعلقات قائم ہوں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

متحدہ عرب امارات کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے انضمام کا فیصلہ مؤخر کردیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہونے واضح کیا کہ انضمام کا منصوبہ ترک نہیں کیا گیا بلکہ وقتی طور پر روک لیا گیا ہے۔

جیرڈ کشنر نے بریفنگ میں کہا کہ 'اسرائیل نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری رضامندی کے بغیر قدم نہیں بڑھائے گا اور ہمارا کچھ وقت کے لیے راضی ہونے کا منصوبہ نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس وقت ہماری توجہ نئے امن معاہدے پر عمل درآمد پر لگی ہوئی ہے'۔

وائٹ ہاؤس کے مشیر کا کہنا تھا کہ 'ہم حقیقی معنوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعلق چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل نئے تعلقات اور نئے اتحادیوں پر توجہ دے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان 'امن معاہدہ' ہوا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔

معاہدے کے مطابق اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کے یکطرفہ الحاق کے اپنے منصوے کو مؤخر کردے گا۔

اس معاہدے کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کے بعد بحرین اور عمان بھی سفارتی تعلقات استوار کرسکتے ہیں، اسرائیل

اس حوالے سے اسرائیل کے وزیر انٹیلی جنس نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین اور عمان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو باضابطہ شکل دینے کے لیے اگلے خلیجی ممالک ہو سکتے ہیں۔

بحرین اور عمان دونوں خلیجی ممالک نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدے کی تعریف کی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کا معاہدہ ایک 'خود مختار فیصلہ' تھا اور اس کا ایران سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ایران اور ترکی نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

بعد ازاں اسرائیل کے صدر نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید کو بیت المقدس (یروشلم) کا دورہ کرنے کی دعوت دے دی۔

اسرائیلی صدر ریون ریولن نے ولی عہد شیخ محمد زاید کو لکھے گئے مراسلے میں کہا کہ ’فیصلہ کن دنوں میں قائدانہ صلاحیت کا اندازہ آگے قدم بڑھانے کے لیے حوصلے اور صلاحیت اور دور اندیشی سے ہوتا ہے'۔

مزید پڑھیں:اسرائیلی صدر نے ابوظہبی کے ولی عہد کو یروشلم دورے کی دعوت دے دی

ریون ریولن نے کہا کہ ’مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنے والی نسلیں آپ جیسے بہادر، عقلمند رہنماؤں کے امن و اعتماد پر مبنی، لوگوں اور مذاہب کے مابین مکالمہ، تعاون اور ایک امید افزا مستقبل سے متعلق فیصلے پر تعریف کریں گی‘۔

اسرائیلی صدر نے خط میں کہا کہ 'اسرائیل کے عوام اور (ذاتی طور پر) میں آپ کو اسرائیل اور یروشلم کا دورہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور ہمارے معزز مہمان بن کر عزت افزائی کا موقع دیں۔'

ریون ریولن نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ قدم ہمارے اور خطے کے لوگوں کے مابین اعتماد کو مضبوط بنانے اور اس کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور یہ اعتماد ہم سب کے مابین تفہیم کو فروغ دے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں