اپوزیشن کیلئے بری خبر ہے کپتان کریز پر لمبی اننگز کھیلنے کیلئے سیٹ ہوگیا ہے، اسد عمر

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
پی ٹی آئی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر حکومتی عہدیدارنے مشترکہ نیوز بریفنگ دی —تصویر: پی آئی ڈی
پی ٹی آئی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر حکومتی عہدیدارنے مشترکہ نیوز بریفنگ دی —تصویر: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے دوستوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کپتان کریز پر سیٹل ہوگئے ہیں، اب ایک لمبی اور پروڈکٹیو اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کو آگے مزید بہتری کے دن نظر آئیں گے۔

خیال رہے کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت 18 اگست 2018 کو تشکیل دی گئی تھی اور عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تھا۔

آج حکومت کو 2 سال مکمل ہونے پر وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے وفاقی وزرا، مشیر خزانہ اور معاون خصوصی نے مشترکہ نیوز بریفنگ کی جس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر اقتصادیات حماد اظہر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ثانیہ نشتر موجود تھیں۔

نیوز بریفنگ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کہا کہ عمران خان نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو ختم کرکے درست اور غلط کی سیاست شروع کی یہی بیانیہ ہم لے کر چل رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کا مقصد فلاحی ریاست کا قیام ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بنیادی مقاصد کو اپنا ہدف بنائیں، ہم وہ ریاست بنائیں جس میں عوام کی خدمت پہلی ترجیح ہو۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کی 2 سالہ کارکردگی کو 'تباہ کن' قرار دے دیا

شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان ایک غریب پرور شخص ہیں جن کی یہ سوچ ہے کہ ملک کو کس طرح آگے لے جایا جائے اور کس طرح ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور 2018 میں ہماری حکومت بننے کے بعد ان اہداف کا حصول ممکن ہوا جبکہ ہماری تمام پالیسیاں بھی اسی سوچ کے گرد گھومتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے مفادات پر اپنے مفاد کو ترجیح دے کر سیاست کو پیشہ بنادیا گیا تھا جسے عوام نے مسترد کردیا۔

وزارت اطلاعات

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کے تناظر میں ہمارا چیلنج صرف یہ نہیں کہ حکومت کی کامیابیوں کی تشہیر کی جائے بلکہ ہمیں اندرونی اور بیرونی محاذ پر لڑنا ہے۔

وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اپنی وزارت کے چیلنجز سے آگاہ کیا—تصویر: ڈان نیوز
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اپنی وزارت کے چیلنجز سے آگاہ کیا—تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے دشمن ہمیں ہر طرح کا نقصان پہنچانا چاہ رہا ہے، ہماری معیشت تباہ کرنا، ملک میں ناامیدی پھیلانا چاہتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وزارت اطلاعات عمران خان کی قیادت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر پاکستانی صحافی بن گیا ہے اب ہمیں یہ جنگ پورے ملک کی سطح پر لڑنی ہے جس میں ہر پاکستانی شریک ہوگا جس میں ہم کامیاب ہوں گے۔

وزارت خارجہ

نیوز بریفنگ میں وزارت خارجہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپنی کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دائمی حریف کے اغراض و مقاصد اور اپنی کوششوں کو دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کیا جائے اور ہماری کوشش یہ تھی کہ پاکستان کی مؤثر نمائندگی کریں کیوں کہ گزشتہ ادوار کے دوران ایک عرصے تک وزیر خارجہ ہی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے بہت سے فورم پر ہمارا نقطہ نظر پیش ہی نہیں ہوپایا تھا۔

لہٰذا ہماری کوشش تھی کہ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستی کو نئی جہت دی جائے اور نئے سمجھوتوں کو فروغ دیں جس کی وجہ سے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی میں ناکامی ہوئی اور پاکستان کامیاب رہا اور جنوبی ایشیا کی تمام رکن ممالک بھارت کے توسیع پسندانہ ڈیزائنز پر معترض ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تو کہتا ہی تھا لیکن آج چین بھارت کے توسیع پسندانہ منصوبوں پر سوال اٹھارہا ہے اور لداخ میں جو ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے، اسی طرح نیپال کی پارلیمان سے منظور ہونے والی قراردادیں آپ کے سامنے ہیں، بنگلہ دیش جسے بھارتی کیمپ کا تصور کیا جاتا تھا لیکن جب سے شہریت قانون آیا وہاں ایک سرد مہری دکھائی دے رہی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا—تصویر: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا—تصویر: ڈان نیوز

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے جس کے ساتھ ہمارے اسٹریٹجک شراکت داری رہی ہے لیکن ہم نے کوشش کی کہ ان اسٹریٹجک شراکت داری کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کیا جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بدل رہی ہے جس میں ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کس طرح کیا جائے اور اس کی ایک زندہ مثال سی پیک 2 ہے جس میں ہم نے واضح اہداف متعین کیے ہیں جس میں صنعتی انقلاب، زرعی پیدوار میں فروغ، تخفیف غربت اور انسانی وسائل کی ترقی شامل ہے۔

اسی طرح ترکی کے ساتھ بھی پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں جہاں وزیراعظم کے دورے کے موقع پر نیا معاشی اور مالیاتی فریم ورک تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ نیا اسٹریٹجک منصوبہ طے پایا، علاوہ ازیں افریقا پر ہماری توجہ نہیں تھی لیکن تعلقات بہت اچھے تھے چنانچہ ہم نے وہاں تجارت اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی منصوبہ بندی کی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کے دو سال، اہم منصوبے، ’تاریخی‘ اقدامات!

وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے پوری ترقی پذیر دنیا کے لیے قرضوں میں ریلیف کا خیال پیش کیا جس پر جی 20 نے کچھ اقدامات کیے اور نیویارک میں ایک پارٹنر شپ تشکیل دی گئی تا کہ ہم مالی اسپیس کے لیے سمجھوتوں کو مزید فروغ دیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلمان ممالک میں افہام و تفہیم پیدا کی جائے تا کہ تمام مسلمان ممالک ایک ساتھ مل کر اسلامو فوبیا کا مقابلہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے افغانستان کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالے لیکن وزیراعظم مسلسل کہتے رہے کہ افغانستان کا صرف سیاسی حل ممکن ہے بالآخر دنیا قائل ہوئی اور آج ساری دنیا ہمارے نقطہ نظر کو تسلیم اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے اور ہم پُرامید ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا جلد آغاز ہوگا جس سے امن کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان، لیکن عمران خان کی حکومت میں اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا اور آج کوئی ایسا بین الاقوامی فورم یا موقع نہیں جسے ہم نے کشمیریوں اور پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 3 مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نے کشمیر پر 2 رپورٹس شائع کیں جس میں بھارت کو بے نقاب کیا گیا ہے، او آئی سی کے 4 اجلاس ہوئے جس میں کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ساتھ ہی ہم نے دفتر خارجہ میں کچھ ادارہ جاتی اصلاحات کی ہیں جن میں وزیر خارجہ ایڈوائزری کونسل، اس کا مقصد تھنک ٹیکنس سے تازہ ان پٹ حاصل کیا جائے اور تجربہ کار سفارتکاروں کو بھی اس سے منسلک کیا جائے۔

اس کے ساتھ 24/7 کرائسس منیجمنٹ سیل بنایا گیا جس کے تحت وزارت سمندر پار پاکستانی اور این سی او سی کے تعاون سے 478 پروازوں کے ذریعے 2 لاکھ 14 ہزار پاکستانی جو بیرونِ ملک پھنسے ہوئے تھے انہیں واپس لایا گیا۔

علاوہ ازیں پبلک ڈپلومیسی شروع کی گئی جس کے تحت 79 ممالک میں 86 پاکستانیوں کو اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے کووِڈ 19 کے دوران ان معاشروں میں اپنی خدمات پیش کیں اور پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنایا، دفتر خارجہ میں اسٹریٹجک کمیونیکیشن ڈویژن بھی بنایا گیا ہے تا کہ پاکستان کے بیانیے کو ترویج دی جائے۔

علاوہ ازیں اسٹیٹ آف دی آرٹ فارن سروس اکیڈمی بنائی گئی جس کا نیا نصاب ترتیب دیا گیا اور اسے چین کے پرانے سفارتخانے میں منتقل کیا گیا جو ہمیں تحفے میں دیا گیا ہے اور اربوں روپے کی جائیداد ہے۔

مزید برآں ای ویزا سہولت اور ایف ڈائریکٹ ایپ بنائی گئی جس کے ذریعے جونیئر، سینئر کوئی بھی افسر سرخ فیتے کو کاٹ کر مجھ سے براہ راست اپنا ان پٹ شیئر کرسکتا ہے۔

وزارت خزانہ

اس موقع پر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ملک کی دو سالہ معاشی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تھی تو بحرانی کیفیت تھی اندرونی اور بیرونی خسارے تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھے اور برآمدات کی شرح صفر جبکہ 20 ارب روپے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر نصف ہوگئے تھے جس کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے معاشی کارکردگی سے آگاہ کیا—تصویر: ڈان نیوز
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے معاشی کارکردگی سے آگاہ کیا—تصویر: ڈان نیوز

مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے لیے حکومت نے بڑے اقدامات کیے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور اس کے بعد دنیا کے دیگر مالیاتی ادارے بھی آگے بڑھے اور ہماری مدد کی جس کے ذریعے ہم نے زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم کیے، ماضی کی حکومتوں کا لیا گیا 5 ہزار ارب روپے کا قرض واپس کیا۔

انہوں نے ماضی میں دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالے سے ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی چنانچہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھانا ہے جس کے نتیجے میں 20 ارب ڈالر کا بیرونی خسارہ کم کر کے 3 ارب ڈالر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بحران کی ایک وجہ یہ تھی حکومت انتخابات کے دوران حد سے زیادہ خرچ کرتی تھی تو ہم نے بہت سختی سے حکومتی اخراجات کو کم کیا، کابینہ کی تنخواہیں کم کی گئیں، صدر و وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کیے حتیٰ کہ فورسز کے اخراجات کو بھی منجمد اور سول حکومت کے اخراجات کو کم کیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بالائی سطح سے اخراجات کم کیے گئے اور گزشتہ مالی سال میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا گیا، حکومت کے کسی ادارے، وزارت یا محکمے کو کوئی ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی، طاقتور لوگوں کو ’نو‘ کہا تاکہ ملک کی میکرو اکانومی ہے اسے مستحکم کیا جائے۔

ساتھ ہی ہم نے ٹیکسز کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور عالمی وبا کورونا وائرس سے پہلے ٹیکسز کے بڑھنے کی رفتار 17 فیصد تھی بدقسمتی سے کورونا وائرس آیا اور جس اچھے انداز میں ہمارا ریونیو بڑھ رہا تھا وہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پہلے ہمیں 2 چیلنجز تھے ایک پاکستان کے عام لوگوں کی زندگی ایک حد سے زیادہ متاثر نہ ہو جس کے لیے ہم نے 12 کھرب 40 ارب روپے کا پیکج دیا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے تنازعات سے بھرپور 2 سال

اس پیکج کے متعدد عناصر تھے لیکن سب سے بڑا حصہ غریب، یومیہ اجرت اور کمزور طبقے کے افراد کو نقد رقم فراہم کرنا ہے اور شاید دنیا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا پروگرام تھا اور گزشتہ 2 سال کے عرصے میں پورے ملک کے ہر حصے میں غریب لوگوں کو ڈھائی سو ارب روپے دیے گئے جس میں کسی سیاسی پس منظر کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔

دوسری جانب بزنس سیکٹر کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کی گئی تا کہ انہیں لیکویڈیٹی کے بہت زیادہ مسائل کا سامنا نہ ہو کیوں کہ ہم چاہتے تھے کہ جب دنیا کی معیشت بحال ہو تو ہمارے بزنس اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں جس کے متعدد طریقوں سے مدد کی گئی انہیں سستے قرضے دیے گئے تا کہ وہ مزدوروں کو ادائیگی کردیں تاکہ انہیں بے روزگاری کا سامنا نہ ہو۔

اس کے ساتھ کاروباری اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کو ایک سال کے لیے مؤخر کردیا گیا، چھوٹے کاروبار کے 3 ماہ کے بجلی کے بل خود ادا کیے تا کہ وہ پھل پھول سکیں اور زرعی شعبے میں خریداری کے لیے مختص کردہ 280 ارب روپے استعمال کیے تا کہ عام لوگوں کے ہاتھ میں پیسے آئیں اور وہ معاشی سرگرمیاں کرسکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ دنیا کے غیر جانبدار لوگ ان اقدامات کی تعریف کررہے ہیں، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم کی، آئی ایم ایف کے بورڈ نے اسے سراہا دنیا کے سرمایہ کاروں نے غیر ملکی سرمایہ کاری میں 188 فیصد اضافہ کیا، اسٹاک مارکیٹ میں 4 فیصد اضافہ ہوا اور بلوم برگ نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی بہتری اسٹاک مارکیٹ میں شامل کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بجٹ میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہزاروں خام اشیا پر درآمدی ٹیکس صفر کردیا اور کہا کہ ملک کی معیشت کو عالمی معیشت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال کے پہلے ماہ میں برآمد میں 6 فیصد اضافہ ہوا، سیمنٹ کی فروخت میں 33 فیصد، برآمدت میں 66 فیصد اضافہ ہوا، پیٹرول کی فروخت میں 8 فیصد، ڈیزل 15 فیصد، کھاد 22 فیصد، موٹر سائیکلوں کی فروخت 31، ٹریکٹرز 17 فیصد، گاڑیوں کی فروخت 4 فیصد بڑھی۔

اس کے ساتھ جون میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئے جو 2.8 ارب ڈالر تھے، ایف بی آر کی کلیکشن 300 ارب روپے رہی جو ان کے خود کے تخمینے سے 23 گنا زیادہ تھی اور کورونا وائرس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں 40 فیصد ہوا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ان سب اشاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں، عمران خان کی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح پاکستان کے عوام ہیں اور ہم نے جتنا پیسہ خرچ کیا پاکستان کے عوام پر کیا۔

اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو 2 کھرب 50 ارب روپے دیے گئے، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو ایک کھرب 92 ارب روپے دیے گئے، یوٹیلیٹی اسٹور پر 5 بنیادی اشیائے خورونوش کو سستے داموں میں فراہم کرنے کے لیے 50 ارب روپے دیے، رمضان کے دوران 19 چیزوں کی قیمت کم رکھنے کے لیے 15 ارب روپے دیے گئے، 72 فیصد پاکستانیوں کے لیے حکومت اپنی جیب سے بجلی سستی کر کے دے رہی ہے، 90 فیصد پاکستانیوں کو گیس کم قیمت پر فراہم کی جارہی ہے اسی طرح 100 فیصد ٹیوب ویلز کو سستی بجلی دی جارہی ہے اور جب دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو عوام تک اس کا فائدہ پہنچایا گیا اس کے علاوہ کھاد کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے کم قیمت گیس دی جارہی ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم سب اگر مل جائیں تو پاکستانی عوام کی امنگیں پوری ہوں گی، یہ ملک ایسے ہی نہیں بنا اس کے لیے بہت سے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ایک لیڈر کے ساتھ مل کر وہ اقدامات کریں جس کے عوام منتظر ہیں۔

وزارت امور اقتصادیات

نیوز بریفنگ دیتے ہوئے وزیر برائے امور اقتصادیات حماد اظہر نے بتایا کہ کووِڈ 19 کے دوران دنیا بھر کے کاروبار مشکلات کا شکار تھے لیکن پاکستان نے ایک علیحدہ راستہ اپنایا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کووِڈ کے دوران سپلائی کے سلسلے اور سپلائی کے راستوں کو مکمل طور پر بحال رکھا کسی بھی چیز کی قلت نہیں ہونے دی اس کی وجہ یہ تھی کہ بروقت تعمیراتی شعبے، منڈیوں اور طبی اشیا کی فراہمی کے سلسلے کو کھولا جس سے کووِڈ کے عروج کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔

وزیر اقتصادی امور حکومتی کی اقتصادی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز
وزیر اقتصادی امور حکومتی کی اقتصادی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے بتایا کہ اسی دوران کاروبار کے لیے ریلیف دیا گیا، اسٹیٹ بینک کی پیرول فنانسنگ، 30 سے 35 لاکھ چھوٹے کاروبار کے 3 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے گئے، ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا اور اس میں ٹیکس کی شرح کو بھی کم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2 سال سے ہم صنعتوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کررہے ہیں اور ہزاروں اشیا پر کسٹم ڈیوٹی صفر کی جاچکی ہے، وِڈ ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی اور سیلز ٹیکس کی اسپیشل رجیم کو بھی ختم کر کے اسٹینڈرڈ رجیم پر لے گئے۔

ساتھ ہی تعمیراتی شعبے کے لیے پیکج کا اعلان کیا گیا جس کے اثرت اب نمایاں ہیں اور تعمیراتی شعبے کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک دیگر شعبوں میں سرگرمیاں عروج پر ہیں اور مون سون سیزن ختم ہونے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ میں 2 نئی پالیسیز متعارف کروائی گئیں اس میں الیکٹرک وہیکل پالیسی اور موبائل مینوفیکچرنگ پالیسی کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس سال 2 سے 3 پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی پیدوار پر غور کیا جارہا ہے جبکہ موبائل مینوفیچکرنگ پالیسی کا اطلاق ہوچکا، مینوفیکچرنگ کی جارہی ہے اور ہماری ایکسپورٹ کا آغاز ہونے والا ہے۔

احماد اظہر نے بتایا کہ اخراجات کی بچت اور بہتر انتظامات کے لیے 5 اداروں کو دیگر اداروں میں ضم کردیا گیا جس میں پاکستان مشین ٹول فیکٹری، اینار پیٹروٹیک سروسز لمیٹڈ، ڈپارٹمنٹ آف ایکسپلوزیو، انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ فرٹیلائزر اور انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہے جبکہ باقی اداروں کے لیے بھی یہ منصوبہ زیر غور ہے۔

انہوں نے کہا کہ متعدد اداروں کو کئی سالوں سے سرد خانے میں رکھا ہوا تھا جس میں پاکستان اسٹیل ملز بھی شامل ہے جس کے لیے گزشتہ 5 برسوں میں 35 ارب روپے کی تنخواہیں ادا کردی گئی، 80 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے، 10 سے 12 سال کے عرصے میں منافع سے نقصان میں چلی گئی اور اب 2 کھرب 36 ارب روپے کے قرضوں پر کھڑی ہے۔

اس سلسلے میں نجکاری کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے تا کہ تیزی سے ایک جوائنٹ اسٹیک ہولڈر کو لایا جائے، اس میں ایک جانب حکومت ہوگی اور دوسری جانب پرائیویٹ سیکٹر کا جوائنٹ اسٹیک ہولڈر ہوگا جبکہ اس سے پہلے اس کے انتظامی مسائل کو حل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کھاد کے سیکٹر میں اتنی تیزی نظر آرہی ہے کہ ہمیں 2 چھوٹے پلانٹس رواں برس فعال کیے گئے ہیں تا کہ کسانوں کی کھاد کی طلب کو پورا کیا جاسکے اور قیمتوں میں استحکام رہے ان پلانٹس کا ویری ایبل کنٹریبیوشن مارجن 294 روپے فی تھیلے سے کم کر کے 186 روپے فی تھیلے تک کردیا گیا ہے یعنی 30 سے 35 روپے کی کمی کی ہے جس سے حکومت پاکستان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: ایم ایل ون منصوبے سے نوکری کے مواقع پیدا اور معیشت کو فروغ ملے گا، وزیر اعظم

حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ چینی کے کارٹلز کے خلاف نوٹس لیا گیا اور شوگر انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے رپورٹ مرتب کر کے پیش کی اور اب ہم شوگر اصلاحاتی کمیٹی بناچکے ہیں جو تیزی سے کام کرتے ہوئے ایک ماہ میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

معاشی اعدادو شمار سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جولائی 2019 کے مقابلے میں جولائی 2020 میں سیمنٹ کی فروخت 41 فیصد زیادہ ہے، یوریا کی فروخت 22 فیصد، ڈی اے پی کی فروخت 29 فیصد، آٹو موبائل کی فروخت 27 فیصد زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ مالی سال میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2 ہزار 561 ملین ڈالر تھی جو گزشتہ 11 سال کی دوسری بلند ترین سطح ہے جبکہ مارچ میں کووِڈ کے آغاز سے قبل یہ 11 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔

انہوں نے بتایا کہ برآمدات کی مد میں فروری میں ڈالر کے حساب سے 14 فیصد اضافہ ہورہا تھا تاہم اس وقت بھارت کی منفی 10.2 فیصد، بنگلہ دیش کی 0.5 فیصد جبکہ پاکستان کی 6 فیصد ہے۔

وزیر نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں ہمیں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تو سخت ترین شرائط پر مبنی 27 نکاتی ایکشن پلان ہمیں دے دیا گیا جو دنیا کے کسی بھی ملک کو اتنے کم عرصے میں نہیں دیا گیا لیکن آج ہم 27 میں سے 14 شرائط پوری کرچکے جبکہ بقیہ 13 میں سے 11 جزوی مکمل اور انشااللہ اس سال جوائنٹ گروپ کا ایکشن پلان مکمل کرلیں گے اور ایم ای آر کے ایکشن پلان میں بھی بہتری لے کر آئیں گے۔

ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال

نیوز بریفنگ میں کورونا وائرس کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کو چیلنجز دیکھنے میں آئے اس میں سب سے زیادہ شدید چیلنج کووِڈ 19 تھا۔

خصوصی بریفنگ کے دوران اسد عمر نے کووِڈ 19 کے چیلنجز پر روشنی ڈالی—تصویر: ڈان نیوز
خصوصی بریفنگ کے دوران اسد عمر نے کووِڈ 19 کے چیلنجز پر روشنی ڈالی—تصویر: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ یہ واحد صورتحال تھی کہ ایک وقت میں پوری دنیا کے نظام صحت پر بے تحاشہ دباؤ پڑا اور معیشت میں مشکلات آئیں کیوں کہ عموماً طبی مسائل اس نوعیت کے نہیں ہوتے کہ معیشت کو ہی بند کردیا جائے یہ اس لحاظ سے ایک منفرد چیلنج تھا اسپینش فلو کے بعد جس کے نتیجے میں صحت اور معاشی پہلو سے جو صورتحال پیدا ہوئی اس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے بتایا کہ سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران امریکا کی مجموعی ملکی پیداوار 30 فیصد جبکہ برطانیہ کی جی ڈی پی 20 فیصد سکڑی چنانچہ اس چیلنج کا جہاں دنیا نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہیں پاکستان نے بھی کیا اور پاکستان ان ممالک کی صف میں ہے جنہیں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کامیابی سے اس مشکل کا مقابلہ کیا۔

اسد عمر نے کہا کہ بل گیٹس نے اپنی گفتگو میں ان ممالک کہ جنہوں نے کووِڈ 19 کا بہتر مقابلہ کیا اس میں پاکستان بھارت کا موازنہ کیا اور پاکستان کی مثال دی۔

اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے پاکستان کے دورے پر وزیر خارجہ سے ملاقات کی تو وہاں پر بھی انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان سے دنیا سیکھ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب وال اسٹریٹ جنرل جو عموماً پاکستان کے بارے میں اچھی خبریں نہیں شائع کرتا اس نے کہا کہ کورونا بحران کے دوران دنیا میں پاکستان ایک برائٹ اسپاٹ ہے۔

وبا کی صورتحال کے بارے میں اسد عمر نے کہا کہ اس کے 2 مختلف پہلو تھے اس ضمن میں متعدد مفروضے سامنے آئے کسی نے کہا کہ موسم کا اثر ہے، کسی نے کہا کہ اس خطے کے لوگوں میں کوئی خاص مدافعت ہے تو کوئی کہتا ہے کہ بی سی جی کے انجیکشن لگتے ہیں اس سے فرق پڑا۔

تاہم اگر آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو بنگلہ دیش میں پاکستان سے 4 گنا زیادہ اموات ہورہی ہیں، 5 سے 7 فیصد کا فرق نہیں 4 گنا زیادہ ہیں، بھارت میں گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران 12 گنا زیادہ اموات ہوئیں اور ایران میں پاکستان کے مقابلے 20 گنا زیادہ اموات ہوئی جو اس خطے میں پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان فرق کو واضح کررہی ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ مارچ سے جولائی کے عرصے میں بنگلہ دیش کی برآمدات گزشتہ سال کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہوئی، بھارت کی برآمدات میں 33 فیصد کم ہوئی جبکہ پاکستان میں 20 فیصد کمی ہوئی یعنی ان دونوں ممالک سے ایک تہائی کم نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ معیشت پر بھی کم نقصان ہوا اور صحت کے حالات بھی کافی بہتر رہے، ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ 3 بہت بنیادی چیزیں ہیں۔

پہلی وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ حکومت کا کام ملک کے کمزور ترین طبقات کی مدد کرنا ہے جبکہ پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں وہاں فیصلہ سازی پر اشرافیہ کا کنٹرول ہوتا ہے اور چند لوگوں، چند خاندانوں کی بہتری کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اس حوالے سے عمران خان بالکل واضح ہیں اور جب پاکستان کے تمام لیڈر کھڑے ہو کر لاک ڈاؤن کا مطالبہ کررہے تھے جہاں کسی کو فکر نہیں تھی کہ جن کا روزگار چھن جائے گا ان کی زندگی کیسے گزرے گی اور میڈیا میں بھی یہی مطالبہ کیا جارہا تھا کیوں کہ ہم جس معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ صاحب ثروت لوگ ہیں اس لیے ہم زیادہ تر یہ نہیں سوچتے کے کمزور طبقے والوں پر کیا گزر رہی ہوگی لیکن عمران خان نے پہلے دن سے یہی بات کی جس پر بہت تنقید ہوئی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کبھی ایک مرتبہ یہ بات نہیں کی امدادی رقم کی فنانسنگ کس طرح ہوگی اس کے باوجود وہ مالیاتی خسارہ بھی کم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی پر بہت تنقید ہوتی ہے کہ نا اہل ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کیمبرج یونیورسٹی، حماد اظہر لنکنز ان، حفیظ شیخ ہارورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں اور دوسرا الزام یہ ہوتا ہے کہ عمران خان دوسروں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے ہیں تو ہاں عمران خان دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے این آر او دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا بحران کے دوران ملک اور قوم کے لیے ضروری اقدامات کے لیے وزیراعظم جس طرح صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں کو ساتھ لے کر چلے اس کی بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہ بھی پڑھیں: اسکینڈلز، تنقید اور تنازعات کے دو سال، وفاقی کابینہ میں چہروں کی تبدیلیاں

انہوں نے کہا کہ کووِڈ 19 کے بحران کے دوران حکومت نے اہلیت بھی دکھائی ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کیا اور سیاسی اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا طریقہ کار بھی دکھایا اور پاکستان کو آگے لے کر جانے کی تمام عناصر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان 22 سال کی جدو جہد کے بعد آئے جس کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی، جنہوں نے اقتدار میں آکر سب سے پہلے معاشی بحران کا سامنا کیا، بھارت کے چیلنج کو قبول کیا، بالاکوٹ کے بعد پیش آنے والی صورتحال کا وقار، حوصلے اور باعزت طریقے سے سامنا کیا اور اس کے بعد کووِڈ کے بحران کا سامنا کیا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے دوستوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کپتان کریز پر سیٹل ہوگئے ہیں اور اب ایک لمبی اور پروڈکٹیو اننگز کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور اب پاکستان کو آگے مزید بہتری کے دن نظر آئیں گے۔

احساس پروگرام

دوسری جانب وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے ریاست مدینہ کے وژن کے تحت احساس پروگرام کو تشکیل دیا گیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جسے بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی مل رہی ہے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ملک میں تخفیف غربت کے اقدامات سے آگاہ کیا—تصویر: ٖڈان نیوز
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ملک میں تخفیف غربت کے اقدامات سے آگاہ کیا—تصویر: ٖڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں 144 سے زائد اقدامات ہیں جو 34 وزارتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں، تاہم تحفیف غربت کے تحت آنے والے اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احساس کفالت کے تحت 70 لاکھ خاندانوں ماہانہ وظیفے اور بچت بینک اکاؤنٹ کی صورت میں دیے جاتی ہے۔

احساس بلا سود قرض ان کے لیے ہے جو چھوٹے کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ملک کے 100 پسماندہ اضلاع میں 29 ارب روپے مالیت کے 8 لاکھ 44 ہزار قرضے دیے گئے جس میں سے 45 فیصد قرضے خواتین کو دیے گئے۔

اسی سے منسلک پروگرام احساس آمدن ہے جو پاکستان کے 23 پسماندہ ترین اضلاع میں جاری ہے جس میں ایک ارب 50 کروڑ روپے کے چھوٹے کاروباری اثاثے دیے جاتے ہیں جس میں مال مویشی، دکان کا سامان وغیرہ شامل ہیں جس میں 60 فیصد خواتین کو دیے گئے۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس اسکالر شپ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکالر شپ پروگرام ہے جو 4 سال پر محیط اور 20 ارب روپے مالیت کا ہے جس کے تحت 2 لاکھ طلبہ کو اسکالر شپ دی جائیں گی جس میں گزشتہ برس 4 ارب 90 کروڑ روپے کی 50 ہزار 500 اسکالر شپ دی گئیں جس میں ملک کی 177 یونیورسٹیز میں 38 فیصد خواتین کو یہ اسکالر شپ دی گئیں۔

ان کاکہا تھا کہ احساس نشونما گزشتہ ہفتے ہی جاری کیا گیا ہے جس کے تحت 9 اضلاع میں 33 سینٹر اسی ماہ مکمل فعال ہوجائیں گے اور پہلے مرحلے میں 2 لاکھ 21 ہزار خاندان اس سے مستفید ہوں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مزدوروں کے لیے احساس لنگر قائم کیے گئے جس میں 12 لنگر قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید کام کیا جائے گا جبکہ 100 سے زائد پناگاہیں بنائیں گئیں جن کا معیار بلند کرنے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں