سعودی عرب نے کہا کہ وہ اس وقت تک متحدہ عرب امارات کی تقلید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتا جب تک یہودی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں۔

خبر رساں ادارے 'اےایف پی' کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے برلن کے دورے کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر 'فلسطینیوں کے ساتھ امن ضروری ہے'۔

مزید پڑھیں: فلسطینی، پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں، سفارتخانے کا وزیر اعظم سے اظہار تشکر

انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ اس کے حصول کے بعد تمام چیزیں ممکن ہیں۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے نتیجے میں اسرائیل مغربی کنارے کے حصوں کے الحاق کو مؤخر کرنے پر راضی ہوا ہے، تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ یہ منصوبہ اب بھی موجود ہے۔

یو اے ای اور اسرائیل کے معاہدے پر خلیج تعاون ممالک (جی سی سی) میں سے بحرین اور عمان نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔

اب تک عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب، یو اے ای اور اسرائیل کے مابین معاہدے پر خاموش تھی لیکن مقامی عہدیداروں کے مطابق امریکی دباؤ کے باوجود ریاض نے اپنے اہم علاقائی اتحادی (یو اے ای) کے نقش قدم پر چلنے کا امکان ظاہر نہیں کیا۔

مزیدپڑھیں: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا متحدہ عرب امارات کا دورہ

اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے اسرائیل کی مغربی کنارے میں وابستگی اور بستیوں کی تعمیر کی 'یکطرفہ پالیسیوں' پر تنقید کی جو دو ریاستوں کے حل کے لیے 'ناجائز' اور 'نقصان دہ' ہے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے نتیجے میں اسرائیل مغربی کنارے کے حصوں کے الحاق کو مؤخر کرنے پر راضی ہوا ہے، تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ یہ منصوبہ اب بھی موجود ہے۔

سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 2002 میں 'عرب امن اقدامات' کی سرپرستی کی تھی لیکن اب ریاض نے فلسطینی امن معاہدے کے بغیر اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی گنجائش نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: فلسطینیوں کو حق نہ ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، وزیراعظم

مذکورہ پیش رفت سے متعلق اسرائیل کے بارے میں مملکت کی پالیسی میں مہارت رکھنے والی ایسیکس یونیورسٹی کے ایک لیکچرر عزیز الغشیان نے کہا کہ 'یہ خیال کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سعودی عرب گے آئے گا یہ بہت دور کی بات ہے'۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں سے بڑی رکاوٹ داخلی اور علاقائی ردعمل کا خوف نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سعودی عرب خود کو مسلم اور عرب دنیا میں بطور لیڈر دیکھنا چاہتا ہے اس لیے ضروری سمجھتا ہے کہ فلسطین کے معاملے کو 'عرب امن اقدام کے فریم ورک' کے اندر تعلقات معمول پر لائیں'۔

واضح رہے کہ یو اے ای کے سرکاری میڈیا کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی 'موساد' کے سربراہ یوسی کوہن نے سیکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔

یوسی کوہن نے ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زید النہیان کے ساتھ 'سلامتی امور کے شعبوں میں تعاون بڑھانے' اور علاقائی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے بعد امریکا نے مسلم دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ یہ سعودی عرب کے مفاد میں ہوگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، جیسا کہ متحدہ عرب امارات نے کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں