بھارت میں فیس بک اور اس کے لابنگ ایگزیکٹو اَنکھی داس کو اپنے ہی ملازمین کی جانب سے 'سیاسی مواد' کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق قواعد پر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مساجد جلانے کے لیے اکسانے والے حکمراں جماعت کے دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما پر نفرت انگیز تقریر کے قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی طوفان برپا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: کاروباری مفادات کے سبب فیس بک بی جے پی کے نفرت آمیز مواد کے خلاف کارروائی سے گریزاں

وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا تھا کہ اَنکھی داس نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پر فیس بک کی پالیسی کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکا سمیت دنیا کے بیشتر مملک میں فیس بک کے ملازمین بھارت میں کمپنی کی قواعد و پالیسی پر اطلاق ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔

فیس بک کے 11 ملازمین نے کمپنی کی قیادت کو ایک کھلا خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تعصب کا جائزہ لیں اور ان کی مذمت کریں۔

مراسلے میں کہا گیا کہ فیس بک کو پالیسی میں مزید مستقل مزاجی لانے کی ضرورت ہے۔

خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ فیس بک کی بھارت میں پالیسی ٹیم میں متنوع نمائندگی ہونی چاہیے۔

ملازمین نے کہا کہ 'بھارت میں رپورٹ ہونے والے واقعات پر مایوسی اور غم کا احساس نہ کرنا مشکل بات ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم اس میں اکیلے نہیں ہیں اور کمپنی کے تمام ملازمین بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: بھارت: گستاخانہ فیس بک پوسٹ پر ہنگامے، 3 افراد ہلاک، 100 سے زائد گرفتار

مراسلے میں کہا گیا کہ 'فیس بک کی مسلم کمیونٹی فیس بک کی قیادت سے اس مسئلے پر جواب چاہتی ہے'۔

تاہم فیس بک اور اَنکھی داس نے تاحال مذکورہ خط پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں فیس بک ایگزیٹو انکھی داس نے عملے سے کہا تھا کہ مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاستدانوں پر نفرت انگیز تقاریر کے اصولوں کا اطلاق کرنے سے 'ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچے گا'۔

اس رپورٹ کے بعد فیس بک نے کہا تھا کہ کمپنی تشدد پر مبنی نفرت انگیز تقریر پر پابندی عائد کرتی ہے اور سیاسی یا پارٹی سے وابستگی کی پرواہ کیے بغیر پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے اور باقاعدگی سے آڈٹ کرتے ہیں'۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ بھارت میں 30 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔

مزید پڑھیں: دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا، امریکی اخبار

دوسری جانب فیس بک کے ایک ذرائع نے کہا کہ بھارت میں فیس بک کے عہدیداروں کو سخت سوالات کے جوابات دینے ہوں گے، جو کچھ ہوا اس پر جانچ پڑتال ہوگی۔

ایک اور ذرائع نے بتایا کہ فیس بک کے ملازمین اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ آیا حکومتی تعلقات اور مواد کی پالیسی کی ٹیموں کے مابین سخت تفریق ہونی چاہیے اور 'مواد کے متوازی' ہونے کے بارے میں ایک 'داخلی بحث' ہو رہی ہے۔

49 سالہ اَنکھی داس کو بھارت کے بااثر کارپوریٹ لابنگ ایگزیکٹوز میں شمار کیا جاتا ہے اور 2011 میں کمپنی میں شامل ہونے کے بعد سے وہ بھارت میں فیس بک صارفین کے اضافے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔

پالیسی کے معاملات پر اَنکھی داس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ 'وہ بھارت میں اپنے لیے ایک خلا پیدا کر رہی ہیں'۔

ایشیا میں تعینات ایک سابق فیس بک ایگزیکٹو اور بھارتی حکومت کے ایک سابق عہدیدار نے اَنکھی داس کو انتہائی تیز اور سیاسی طور پر فعال قرار دیا۔

ایک اور سابق ملازم نے بتایا کہ انکھی داس کمپنی میں موجود امور کے بارے میں ہمیشہ ہی واضح رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک نے کورونا وائرس سے متعلق لاکھوں جعلی پوسٹس ڈیلیٹ کردیں

انکھی داس نے اس تنازع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ان کی بہن ریشمی نے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کو بتایا کہ 'ہم بہنیں بہت سخت چیزوں سے بنی ہیں'۔

خیال رہے کہ ریشمی بی جے پی کے طلبہ ونگ سے عوامی سطح پر اپنے تعلقات کا اعتراف کرچکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں