ججز کےخلاف دھمکی آمیز ویڈیو کیس: ملزم مرزا افتخار کی ضمانت منظور

ہم فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے ضمانت منظور کر رہے ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ — فائل فوٹو / اسکرین شاٹ
ہم فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے ضمانت منظور کر رہے ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ — فائل فوٹو / اسکرین شاٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز کے خلاف متنازع اور توہین آمیز ویڈیو کیس کے ملزم و مذہبی عالم مرزا افتخارالدین کی ضمانت منظور کر لی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے عدلیہ کے خلاف متنازع اور توہین آمیز تقریر کے کیس میں ملزم مرزا افتخارالدین کی ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ملزم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے نا کہ ملزم نے جج اور عدلیہ سے متعلق کیا کہا ہے؟

وکیل نے کہا کہ ملزم اس بیان میں اپنے الفاظ کی حد تک معافی مانگ چکے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، ہم تو ضمانت دیکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ پوری عدلیہ کو بدنام کرنے کا معاملہ ہے۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ مرزا افتخار الدین کا وہ بیان ہم نے اپلوڈ یا وائرل نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ججز کیخلاف دھمکی آمیز ویڈیو کیس، ملزم کی سپریم کورٹ سے معافی کی استدعا

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت ہتک عزت اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔

اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے ضمانت منظور کر رہے ہیں۔

دھمکی آمیز ویڈیو کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ایک ویڈیو کلپ کی بنیاد پر جسٹس قضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اسلام آباد کے سیکریٹریٹ پولیس اسٹیشن میں 24 جون کو شکایت درج کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اس لیے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگی خطرے میں ہے۔

انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ 'میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے'۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا تھا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کیخلاف ویڈیو از خود نوٹس کیس: ایف آئی اے کے سربراہ سپریم کورٹ طلب

بعد ازاں اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد 26جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔

بعدازاں 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔

دوسری جانب افتخار الدین مرزا کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا گیا تھا جس میں غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ایک ’نجی تقریب‘ میں انہوں نے ’غیر دانستہ‘ طور پر معزز ججز کے خلاف کچھ الفاظ ادا کیے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

ساتھ ہی ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ویڈیو ان کی مرضی کے بغیر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔

دوسری جانب یکم جولائی کو ایف آئی اے ویڈیو میں توہین آمیز گفتگو کرنے والے شخص کے حوالے سے عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا کہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے عالم مرزا افتخارالدین نے کسی کے اکسانے یا ہدایت پر یہ تقریر کرنے کی تردید کی ہے۔

کیس کی 2 جولائی کو ہونے والے سماعت میں سپریم کورٹ نے مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور 7 روز میں جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں