فیس بک پاکستان اور بھارتی صارفین کیلئے پالیسیوں میں فرق کی وضاحت کرے، وزیر آئی ٹی

اپ ڈیٹ 20 اگست 2020
وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے فیس بک پر لگائے جانے والے الزامات نے اس کے غیر جانبداری کے دعوؤں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، وفاقی وزیر — فائل فوٹو / اے پی پی
وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے فیس بک پر لگائے جانے والے الزامات نے اس کے غیر جانبداری کے دعوؤں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، وفاقی وزیر — فائل فوٹو / اے پی پی

وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق نے فیس بک انتظامیہ کی بھارتی انتہا پسند حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نریندر مودی نواز پالیسیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق نے اپنے بیان میں کہا کہ وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ میں فیس بک کے کچھ موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے کیا گیا دعویٰ اس لیے حقیقت پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے کہ فیس بک جیسے اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کی نفرت انگیز پوسٹوں اور فرقہ وارانہ مواد کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے فیس بک پر لگائے جانے والے الزامات نے اس کے غیر جانبداری کے دعوؤں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور اب مختلف بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں کہ فیس بک آر ایس ایس اور بی جی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 5 اگست 2019 کو نریندر مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کے نفاذ اور مقبوضہ وادی کو ایک جیل میں تبدیل کرنے کے ظالمانہ اور غیر انسانی عمل کے خلاف پوری دنیا میں انسان دوست تنظیموں اور رہنماؤں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب سوشل میڈیا پر صارفین نے ان بھارتی مظالم پر آوازیں بلند کیں تو فوری طور پر فیس بک انتظامیہ نے اس پر 'نفرت آمیز پوسٹ' کا ٹیگ لگا کر ان اکاؤنٹس کو معطل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: فیس بک لابنگ ایگزیکٹو کو 'سیاسی مواد' پر اپنے ملازمین کے سوالات کا سامنا

وفاقی وزیر آئی ٹی نے کہا کہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تشہیر پر فیس بُک کو سارے قواعدو ضوابط یاد آجاتے ہیں لیکن جب بات ہو بھاری سرمایہ کاری اور علاقائی دفاتر میں بھارتی ملازمین کی اکثریت کی تو فیس بک انتظامیہ ان مالی مفادات کی وجہ سے سارے اخلاقی اقدار اور قواعد کو فراموش کرکے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی پالیسی اسرائیل کے مظالم پر خاموشی اور ان کے خلاف بولنے والوں کی معطلی کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔

سید امین الحق نے سوال کیا کہ فیس بک انتظامیہ بتائے کہ انتہا پسند بی جے پی اور ہٹلر مزاج مودی کی نفرت زدہ پالیسیاں انہیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ اگر فیس بُک نفرت آمیز پوسٹوں کے خلاف ہے تو نریندر مودی جیسے انسان دشمن سے نزدیکیاں کیسی؟ فیس بُک انتظامیہ کی کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے ناپسندیدگی کیوں؟ فیس بُک واضح کرے کہ پاکستانی اور بھارتی صارفین کے لیے اس کی پالیسیوں میں فرق کیوں ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ فیس بُک انتظامیہ کی وضاحتیں اس کے عمل کے بالکل برخلاف ہیں، یہ واضح ہوگیا کہ فیس بک غیر جانبدار نہیں رہا ہے اور اسے خود پر سے یہ داغ ہٹانے کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے 25 کروڑ سوشل میڈیا صارفین کی وجہ سے فیس بک انتطامیہ کے امتیازی رویے پر انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان نہایت تیزی سے ڈجیٹل ورلڈ کی وسیع مارکیٹ بن رہا ہے، اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔

وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ پاکستانی صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کاروباری مفادات: فیس بک بی جے پی کے نفرت آمیز مواد کےخلاف کارروائی سے گریزاں

وال اسٹریٹ جرنل کا انکشاف

واضح رہے کہ چند روز قبل بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مساجد جلانے کے لیے اکسانے والے حکمراں جماعت کے دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما پر نفرت انگیز تقریر کے قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی طوفان برپا ہوا تھا۔

وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں فیس بک اور اس کے لابنگ ایگزیکٹو اَنکھی داس نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پر فیس بک کی پالیسی کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انکھی داس نے عملے سے کہا تھا کہ مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدانوں پر نفرت انگیز تقاریر کے اصولوں کا اطلاق کرنے سے 'ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: گستاخانہ فیس بک پوسٹ پر ہنگامے، 3 افراد ہلاک، 100 سے زائد گرفتار

اس رپورٹ کے بعد فیس بک نے کہا تھا کہ کمپنی تشدد پر مبنی نفرت انگیز تقریر پر پابندی عائد کرتی ہے اور سیاسی یا پارٹی سے وابستگی کی پرواہ کیے بغیر پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے اور باقاعدگی سے آڈٹ کرتے ہیں'۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ بھارت میں 30 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں