پاکستان، خطے میں دیرپا امن کیلئے بین الافغان مذاکرات کے جلد انعقاد کا متمنی ہے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 25 اگست 2020
دفتر خارجہ کے مطابق افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں وزارت خارجہ پہنچا — فوٹو: ڈان نیوز
دفتر خارجہ کے مطابق افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں وزارت خارجہ پہنچا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغان امن عمل سمیت خطے میں دیرپا امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنی مصالحانہ کوششیں جاری رکھے گا اور بین الافغان مذاکرات کے جلد انعقاد کا متمنی ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں وزارت خارجہ پہنچا جہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وفد کا خیر مقدم کیا۔

طالبان کے وفد نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کی جس میں افغانستان امن عمل میں حالیہ پیشرفت، بین الافغان مذاکرات کے جلد انعقاد سمیت باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر بات چیت کی گئی۔

افغان طالبان کے وفد نے وزیر خارجہ کو طالبان اور امریکا کے مابین طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔

افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں وزارت خارجہ پہنچا، دفتر خارجہ — فوٹو: ڈان نیوز
افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی کی قیادت میں وزارت خارجہ پہنچا، دفتر خارجہ — فوٹو: ڈان نیوز

ملاقات کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان شروع دن سے یہی مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ افغان مسئلے کا دیرپا اور مستقل حل افغانوں کی سربراہی میں مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغان امن عمل میں اپنا مصالحانہ کردار مشترکہ ذمہ داری کے تحت ادا کرتا آ رہا ہے، پاکستان کی مخلصانہ اور مصالحانہ کاوشیں 29 فروری کو دوحہ میں طے پانے والے طالبان، امریکا امن معاہدے کی صورت میں بارآور ثابت ہوئیں۔

وزیر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ افغان قیادت، افغانستان میں قیام امن کے لیے اس امن معاہدے کی صورت میں میسر آنے والے نادر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کے وفد کی بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کیلئے اسلام آباد آمد

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، خطے میں امن و استحکام کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے بین الافغان مذاکرات کے جلد انعقاد کا متمنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دیرینہ مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، افغانستان میں معاشی مواقع کی فراہمی، افغان مہاجرین کی باعزت جلد واپسی اور افغانستان کے معاشی استحکام کے لیے عالمی برادری کو اپنی کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

— فوٹو: دفتر خارجہ
— فوٹو: دفتر خارجہ

شاہ محمود قریشی نے افغان طالبان کے وفد کو افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور 'سپائیلرز' سے متعلق ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغان امن عمل سمیت خطے میں دیرپا امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنی مصالحانہ کوششیں جاری رکھے گا۔

افغان طالبان کے وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کی طرف سے بروئے کار لائے جانے والی مسلسل کاوشوں اور پر خلوص معاونت پر وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔

'آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں'

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'طالبان قیادت کے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست ہوئی، طالبان کے وفد کے ساتھ تیسری نشست ہوئی، اس سے قبل اکتوبر 2019 میں وزارت خارجہ اور فروری 2020 میں دوحہ میں ملاقات ہوئی تھی۔'

انہوں نے کہا کہ طالبان وفد کے سامنے پاکستان کا موقف پیش کیا، طالبان کی قیادت سمجھتی ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا مثبت کردار رہا ہے جس کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور پرامید ہوں کہ مستقبل میں راستہ نکل سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ دوحہ میں امن کا جو معاہدہ ہوا اس پر عمل ہونا چاہیے، طالبان وفد کا کہنا تھا کہ کچھ مشکلات تھیں جن کا بات چیت کے ذریعے راستہ نکل سکتا ہے۔

واضح رہے کہ افغان طالبان کے قطر میں مقیم سیاسی دفتر سے وفد بین الافغان مذاکرات میں درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے بات چیت کے لیے پاکستان پہنچا تھا۔

یہ طالبان کے سیاسی وفد کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے، اس سے قبل انہوں نے اکتوبر 2019 میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا افغانستان پر طالبان کے ساتھ جلد از جلد امن قائم کرنے پر زور

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آخری دورے نے فروری 2020 میں امریکی طالبان معاہدے پر حتمی دستخط کرنے میں کس طرح مدد فراہم کی تھی اور کہا کہ اس وفد کو دوبارہ اس اُمید کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اور امکان ہے کہ یہ عمل جلد شروع ہوگا۔

چونکہ دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے لیے سب سے اہم شرط تھی جو دوحہ میں امریکی طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دستخط کے تحت اصل میں 10 مارچ تک ہونی تھی تاہم قیدیوں کی رہائی میں تاخیر بات چیت کے آغاز کو روکنے کی سب سے اہم وجہ رہی۔

طالبان نے دعوی کیا کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق تمام ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کو رہا کردیا ہے جبکہ کابل نے ان 5 ہزار افراد میں سے اب بھی 320 قیدیوں کو آزاد کرنا ہے۔

افغان حکومت نے آخر کار ان 400 قیدیوں کی رہائی کے لیے رضامندی حاصل کرلی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ سنگین جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔

اب تک ان میں سے صرف 80 کو رہا کیا گیا ہے جبکہ 320 سرکاری تحویل میں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں