امریکا میں ٹک ٹاک کی فروخت کا معاہدہ آئندہ روز میں طے ہونے کا امکان

28 اگست 2020
ٹک ٹاک کا امریکا اور آسٹریلیا کا بزنس جلد فروخت ہونے کا امکان ہے — اے ایف پی فوٹو
ٹک ٹاک کا امریکا اور آسٹریلیا کا بزنس جلد فروخت ہونے کا امکان ہے — اے ایف پی فوٹو

چین کی ٹیکنالوجی کمپنی امریکا میں ٹی ٹاک کا کنٹرول چھوڑنے کے لیے تیار ہے اور ممکنہ طور پر مقبول سوشل میڈیا ایپ کی فروخت کا معاہدہ آئندہ دنوں میں طے پاسکتا ہے۔

سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کے شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں آپریشنز کی فروخت کے معاہدے کا اعلان آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ اب تک مائیکروسافٹ، اوریکل اور ایک 'تیسری امریکی کمپنی' نے ٹک ٹاک کو خریدنے کے لیے پیشکشیں کی ہیں۔

مزید پڑھیں : امریکی حکومت کی مجوزہ پابندی کے باعث ٹک ٹاک کے سی ای او مستعفی

خیال رہے کہ گزشتہ روز ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریٹیل کمپنی وال مارٹ مائیکروسافٹ کے ساتھ مل کر ٹک ٹاک کو خریدنے کے عمل کا حصہ بن رہی ہے۔

نئی رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کے امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوی لینڈ کے بزنس کی مالیت 30 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔

وال مارٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کا ماننا ہے کہ ٹک ٹاک میں اشتہارات کے اضافے سے ان مارکیٹس میں کریٹیئر اور صارفین کو واضح فائدہ ہوگا، جبکہ ای کامرس میں ایک نئے موڑ کا اضافہ ہوسکے گا۔

بیان میں کہا گیا 'ہمارا ماننا ہے کہ مائیکروسافٹ کے ساتھ شراکت داری سے ٹک ٹاک امریکا میں ممکنہ تعلق سے وال مارٹ کو اپنے صارفین تک رسائی اور خدمت کا ایک اہم ریعہ مل جائے گا جبکہ ہماری تھرڈ پارٹی مارکیٹ پلیس اور اشتہارات کاروبار بھی ترقی کرے گا'۔

سی این بی سی کے مطابق وال مارٹ اس حوالے سے پہلے گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ سے معاہدہ کرنا چاہتی تھی، مگر مائیکروسافٹ کا انتخاب اس وقت کیا گیا جب اسے اندازہ ہوا کہ الفابیٹ کے ساتھ وہ ٹک ٹاک کے اکثریتی حصے کو حاصل نہیں کرسکے گی۔

ٹک ٹاک، مائیکروسافٹ اور اوریکل کی جانب سے رپورٹ میں بیانات دینے سے گریز کیا گیا۔

یہ رپورٹ اس خبر کے بعد سامنے آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ پانبید کے باعث ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او)کیون اے میئر نے استعفیٰ دے دیا۔؎

معروف انٹرٹینمنٹ کمپنی والٹ ڈزنی کے سابق کنزیومر ڈائریکٹر 58 سالہ کیون اے میئر 2 ماہ قبل ہی ٹک ٹاک کے سی ای او تعینات ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : امریکی حکومت کی مجوزہ پابندی کے خلاف ٹک ٹاک نے عدالت سے رجوع کرلیا

برطانوی خبررساں ادارے ' بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق ملازمین کو لکھے گئے خط میں کیون اے میئر نے کہا کہ 'حالیہ چند ہفتوں میں سیاسی ماحول میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، میں نے اس حوالے سے اہم عکاسی کی ہے کہ کارپوریٹ ڈھانچے میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی اور اُس عالمی کردار کے لحاظ سے اس کا کیا مطلب ہے جس کے لیے میں یہاں آیا تھا۔

چند روز قبل ٹک ٹاک نے امریکی حکومت کی جانب سے اپنی سروس پر مجوزہ پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اس حوالے سے ٹک ٹاک نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 اگست کے ایگزیکٹیو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'بغیر کسی شواہد کے اتنا سخت فیصلہ کیا گیا اور وہ بھی مناسب طریقہ کار کے بغیر'۔

خیال رہے کہ 22 اگست کو ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کمپنی کے پاس ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف عدالت میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ 6 اگست کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو آئندہ 45 دن میں اپنے امریکی اثاثے کسی دوسری امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کی مہلت دی تھی۔

صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا اگر چینی ایپلی کیشنز کو آئندہ 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا گیا تو ان پر امریکا میں پابندی لگادی جائے گی۔

ٹک ٹاک کو 15 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم بعد ازاں 16 اگست کو ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ مدت میں مزید 45 دن کا اضافہ کردیا تھا۔

16 اگست کو امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے گئے نئے حکم نامے میں قومی سلامتی کے تحفظات کو جواز بناتے ہوئے بائیٹ ڈانس کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امریکا میں اپنے کاروبار کو اگلے 90 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت کردے۔

امریکی صدر کی جانب سے ٹک ٹاک کے خلاف بندش کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جانے کے بعد مائیکرو سافٹ، ایپل، ٹوئٹر اور اوریکل نامی امریکی کمپنیوں نے ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے خریدنے میں دلچسپی بھی ظاہر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں