ٹرمپ کے حامیوں کا نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے تصادم، ایک ہلاک

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2020
پولیس نے کہا ہے فائرنگ کرنے والے کون تھے اب تک تعین نہیں ہوسکا—فوٹو:اے ایف پی
پولیس نے کہا ہے فائرنگ کرنے والے کون تھے اب تک تعین نہیں ہوسکا—فوٹو:اے ایف پی

امریکا کی ریاست اوریگن کے شہرپورٹ لینڈ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان تصادم کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

بین الاقوامی خبر ایجنسیز کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ فائرنگ ٹرمپ کے 600 گاڑیوں پر مشتمل وفد کی مظاہرین سے تصادم کی وجہ سے ہوئی یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔

مزید پڑھیں:امریکا: سیاہ فام شخص کی ہلاکت پر مظاہرے، 2 شخص ہلاک

پولیس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں کا کارواں شہر کے مضافات میں ایک مال کے پاس جمع ہوا اور پورٹ لینڈ کے مرکز کی جانب رواں ہوا لیکن جب مظاہرین نے مختلف سڑکوں اور پلوں میں کھڑے ہو کر انہیں روکنے کی کوشش کی تو تصادم ہوا۔

—فوٹو:اے ایف پی
—فوٹو:اے ایف پی

واقعے کی ویڈیو میں دونوں فریقین کے درمیان تصادم اور ٹرمپ کے حامیوں کو پیلٹس فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ مظاہرین ان کی طرف مختلف اشیا اچھال رہے ہیں۔

بلیک لائیوز میٹر نامی تنظیم کی جانب سے عام طور پر احتجاج کے دوران پولیس اور وفاقی حکومت کے عمارتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، متعدد مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے جبکہ شہر کے میئر اور سیاہ فارم برادری ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو بند کرنے کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے گزشتہ روز بھی پولیس یونین کی عمارت کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔

اس سے قبل جمعے کو بھی مظاہرین نے پورٹ لینڈ میئر کے دفاتر کے سامنے دھرنا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا: سیام فام شخص کے قتل کے الزام میں پولیس افسر کےخلاف مقدمہ

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان تصادم سڑکوں پر ہوا جہاں پینٹ بال گنز سے فائر کیا گیا جبکہ جواب میں مظاہرین نے ان پر مختلف اشیا پھینکیں۔

—فوٹو:اے ایف پی
—فوٹو:اے ایف پی

شہریوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں نے تصادم کے خدشات کے باوجود کلیک ماس ٹاؤن سینٹر سے پورٹ لینڈ کے مرکز تک ریلی نکالی۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں کی ریلی شروع ہوتے ہی فائرنگ ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ امریکی صدر کو پولیس کے ہاتھوں رواں برس مئی میں مینیوپولس میں سیاہ فارم شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت سمیت دیگر واقعات پر خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر تنقید کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں نسلی امتیاز کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوئی۔

امریکا میں احتجاج کا نیا سلسلہ رواں ہفتے پولیس کی جانب سے سیاہ فارم شہری جیکب بلیک کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے پر شروع ہوا ہے۔

بعد ازاں 26 اگست کو ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہروں میں 2 ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوگیا تھا۔

کاؤنٹی شیرف نے بتایا تھا کہ سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے تیسرے روز بھی پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیں:پڑھیں: امریکا میں پولیس گردی کےخلاف سیاہ فام سراپا احتجاج

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ فائرنگ پر لوگ چیخ رہے ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں فائرنگ کی گئی۔

ویڈیو میں دکھایا گیا کہ دو دیگر افراد زخمی ہوئے اور راہگیروں نے ان کی مدد کی، ایک شہری کے سر میں گولی لگی اور دوسرے کا بازو شدید زخمی ہوا تھا، جس کے بعد احتجاج میں مزید شدت آگئی تھی۔

واشنگٹن میں دو روز قبل ہی ہزاروں افراد نے نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا میں 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا۔

امریکا میں پولیس کے ہاتھوں غیر مسلح سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد جاری پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران تقریباً 10 ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں امریکا کی متعدد ریاستوں میں پھیل جانے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

دوسری جانب پوپ فرانسس نے امریکا میں بدامنی پر اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی ’نسل پرستی سے اپنی نظریں نہیں چرا سکتا‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’لیکن تشدد صرف اپنی تباہی اور شکست کا باعث بنے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں