فراڈ کرنے والے سرکاری عہدیداروں کو برطرفی کی سزا دینی چاہیے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 31 اگست 2020
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ لاہور کے سروس ٹریبونل کے 3 مارچ 2017 کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ لاہور کے سروس ٹریبونل کے 3 مارچ 2017 کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عہدیداروں کی جانب سے دیگر افراد کو فنڈز یا املاک کی فراہمی یا خود حاصل کرنا فراڈ ہے اور جو سرکاری اراضی یا پیسے میں یہ فراڈ یا غبن کررہے ہوں ان کے خلاف ڈسپلنری کارروائی میں نرمی یا انہیں ملازمت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کے لکھے حکم نامے میں کہا گیا کہ لہٰذا ایسے سرکاری ملازمین جو ریاستی اراضی کے غبن میں ملوث ہوں ان کو ملازمت سے کچھ سالوں کی چھٹی کے بجائے برطرفی کی سزا دینی چاہیے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے لاہور کے سروس ٹریبونل کے 3 مارچ 2017 کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سنایا۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ اپیل فیصل آباد ڈویژن کے کمشنر نے اللہ بخش نامی شخص کے خلاف دائر کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'جب فریق نے بذات خود جرم کرنے کا اعتراف کیا تھا کہ اس نے ضلع جھنگ کی چک 492/جے بی میں 270 کنال کی سرکاری اراضی منتقل کی جس سے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا، فریق کا یہ فعل محض غفلت قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ بد انتظامی ہے اس قانون کے تحت اس پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے'۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل چوہدری فیصل حسین نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم نے بذات خود جرم کا اقرار کیا ہے لیکن پنجاب سروس ٹریبونل نے قرار دیا کہ فریق اللہ بخش کی جانب سے ایک شخص کے حق میں سرکاری زمین کی حیثیت میں تبدیلی غلط کام نہیں کیوں کہ اس سے حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

چنانچہ کہا گیا کہ محکمے کی جانب سے ملازمت سے برطرفی سے متعلق سنائی گئی سزا جرم کی سنگینی سے مطابقت نہیں رکھتی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: گیس کمپنیوں کی اپیلیں خارج، 417 ارب روپے ادا کرنے کا حکم

جس کے بعد سروس ٹریبونل نے محکماتی حکام کی جانب سے ملزم پر عائد سزا کو 2 سال کی جبری برطرفی میں تبدیل کردیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ٹریبونل نے سرکاری عہدیدار کے غلط کام کو نرمی سے برتا جبکہ اس نے خود اس جرم کے ارتکاب کا اعتراف کیا تھا۔

سپریم کورٹ بینچ نے کہا کہ 'سوال یہ ہے کہ ٹریبونل کا اختیار کتنا وسیع ہے' اور پوچھا کہ کیا یہ اختیارات صوابدیدی اور ٹریبونل کی خواہش کے مطابق غیر سنجیدہ اور لامحدود تھے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ 'معاملے کے تناظر میں ہم نے دیکھا کہ منطقی اور قانونی طور پر قابل قبول ہونا تو دور کی بات ٹریبونل کا فیصلہ کسی بھی استدلال سے عاری اور دائرہ اختیار سے متصادم ہے'۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ٹریبونل کا نافذ شدہ حکم نامہ برقرار نہیں رہ سکتا اس لیے اپیل کو منظور کرتے ہوئے مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں