ڈھڈوچہ ڈیم کیلئے حاصل شدہ اراضی مالکان کا معاوضے میں اضافے کیلئے عدالت سے رجوع

اپ ڈیٹ 31 اگست 2020
ڈھڈوچہ ڈیم کی تعمیر کی باتیں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے چل رہی ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈھڈوچہ ڈیم کی تعمیر کی باتیں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے چل رہی ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ڈھڈوچہ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کی دسمبر 2021 کی آخری تاریخ قریب آتے ہی پانی کے بڑے ذخائر کے لیے استعمال ہونے والی اراضی کے متاثرہ مالکان نے معاوضے میں اضافے کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ سے رجوع کرلیا۔

زمین کے مالکان نے اپنے وکیل بیرسٹر سردار عبدالرزاق کے توسط سے 75 ہزار روپے فی کنال کی قیمت پر اراضی کے حصول کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزاروں کے مطابق یہ علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اسکیموں، بحریہ ٹاؤن اور انڈسٹریل ایریا سے ملحق ہے اور یہاں فی کنال اراضی کی لاگت 50 لاکھ روپے فی کنال ہے۔

درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت نے دھادر اور منگوت میں واقع 220 کنال 75 ہزار روپے فی کنال میں حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ابتدائی سماعت کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مزمل اختر شبیر نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کا جواب طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: مہمند ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا، تعمیر 2024 میں مکمل ہوگی

واضح رہے کہ ڈھڈوچہ ڈیم کی تعمیر کی باتیں تقریباً ڈیڑھ دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے چل رہی ہیں۔

2002 میں اسمال ڈیمز آرگنائزیشن کی جانب سے اس جگہ کی ابتدائی فزیبلٹی اسٹڈی کی گئی تھی، اراضی کے حصول کے ایکٹ 1894 کے سیکشن 4 کے تحت اس زمین کو محفوظ بنانے کے لیے 3 نومبر 2010 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

یہ علاقہ ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ، کلر سیداں اور راولپنڈی کا حصہ ہے۔

2006 میں ڈی ایچ اے نے راولپنڈی کے قریب 18 ہزار کنال اراجی خریدی تھی جہاں ڈیم تعمیر ہونا تھا اور بحریہ ٹاؤن کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے طور پر ایک رہائشی اسکیم شروع کی تھی۔

ڈی ایچ اے ویلی اسکیم شہید فوجی اہلکاروں کے سوگوار خاندانوں کے لیے تھی جسے ڈیم کے مقام پر تجویز کیا گیا تھا۔

4 اگست 2015 کو سپریم کورٹ نے ایک از خود کیس میں پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اصل مجوزہ جگہ پر ہی ڈیم تعمیر کرے۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ پاور چائنا اور ایف ڈبلیو او کو ایوارڈ

ہدایت کے فوراً بعد ہی صوبائی حکومت نے علاقے میں زمینوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی تھی اور بعد میں 18-2017 کے اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبے میں ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز بھی مختص کردیے تھے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے 7 ارب روپے کی لاگت سے ڈیم کی تعمیر کا عمل شروع کردیا تھا۔

اس منصوبے کی تکمیل کے بعد واسا راولپنڈی اور اس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں کو 2 کروڑ 50 لاکھ گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جاسکے گا۔

ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 60 فٹ ہے جبکہ ڈیڈ لیول کا تخمینہ 15 فٹ کی سطح پر لگایا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں