حتمی تحقیقاتی رپورٹ آنے تک ایک ملزم ڈاکٹر ماہا کیس سے 'ڈسچارج'

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2020
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ نے دندان ساز اور ایک معزز شہری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ نے دندان ساز اور ایک معزز شہری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی ایک مقامی عدالت نے ڈاکٹر ماہا کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے تک ایک ملزم کو کیس سے نکالنے کی ہدایت کردی۔

ابتدا میں پولیس نے کہا تھا کہ کلفٹن کے ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے والی نوجوان خاتون ڈاکٹر نے 18 اگست کو اپنے گھر میں خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔

بعدازاں پولیس نے ان کے دوست جنید خان، وقاص حسن، ڈاکٹر عرفان قریشی اور دیگر 2 افراد کو قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمے میں نامزد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر ماہا کو دھمکیاں دینے، تشدد کرنے والے ڈاکٹر، دیگر ملزمان کےخلاف مقدمہ

جب یہ معاملہ جوڈیشل میجسٹریٹ (جنوبی) کے سامنے سماعت کے لیے آیا تو تفتیشی افسر نے ڈاکٹر عرفان قریشی کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انہیں پیش کیا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ دیگر 2 ملزمان وقاص حسن اور جنید خان ابھی تک مفرور ہیں اور مفروروں کا سراغٖ لگانے اور تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی۔

ڈاکٹر عرفان قریشی کے وکیل نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں ملزم کو عدم شواہد پر کیس سے علیحدہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ نے دندان ساز اور ایک معزز شہری ہے۔

وکیل نے دعویٰ کیا کہ شکایت کنندہ کو اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی بدنیتی پر مبنی ارادوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور اس بات کا ثبوت سامنے نہیں آیا کہ متوفیہ کو زہر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: ڈیفنس میں 'گھریلو تنازع' پر خاتون ڈاکٹر کی 'خودکشی'

درخواست میں کہا گیا کہ وقوعہ کے روز متوفیہ ڈاکٹر عرفان قریشی کے کلینک آئی تھیں اور 4 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ان سے ملاقات کیے بغیر واپس چلی گئی تھیں اور اس سلسلے میں ان دوجنوں کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ موجود ہے۔

وکیل صفائی نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر کی پیش کردہ رپورٹ اور ڈیتھ/ میڈیکل سرٹیفکیٹس میں بھی زہر کی قسم کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

وکیل صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ نے کوئی جرم نہیں کیا، لہٰذا انہیں اس کیس سے علیحدہ کرکے رہا کیا جائے۔

تاہم سرکاری وکیل نے اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ شکایت کنندہ کو متوفیہ کے والد کے بیان پر گرفتار کیا گیا تھا اور ایک خون کے نمونے کی رپورٹ کا نتیجہ ابھی آنا باقی ہے۔

جس پر جج نے کہا کہ 'اس وقت میرے سامنے ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو شکایت کنندہ کو اس کیس سے منسلک کرے اور یہ کہ وہ یقینی طور پر مقدمے کا سامنا کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ماں نے 3 بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرلی

جج نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ ملزم کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں، اور عرفان علی قریشی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 63 کے تحت کیس سے علیحدہ کردیا اور انہیں 5 لاکھ روپے کے پی آر بونڈز جمع کروانے کی بھی ہدایت کی۔

تاہم جج نے پروسیکیوشن کے لیے واضح کیا کہ انہیں کیس سے علیحدہ کرنے کا مطلب ان کی بریت نہیں ہے کیوں کہ حتمی تفتیشی رپورٹ بھی عدالت کے سامنے پیش کی جانی ہے۔


یہ خبر 2 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں