پی ٹی اے کا یوٹیوب سے ایک بار پھر غیر اخلاقی، فحش مواد ہٹانے کا مطالبہ

اتھارٹی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم کو پاکستان کی ڈیجیٹل مارکیٹ میں آگے بڑھنے کے لیے سہولت اور مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، پی ٹی اے — فائل فوٹو / رائٹرز
اتھارٹی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم کو پاکستان کی ڈیجیٹل مارکیٹ میں آگے بڑھنے کے لیے سہولت اور مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، پی ٹی اے — فائل فوٹو / رائٹرز

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم 'یوٹیوب' سے ایک بار پھر پاکستان میں غیر اخلاقی، فحاشی، عریانی اور نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ٹی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یوٹیوب کو ایک بار پھر ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مواد کی نگرانی کے لیے مؤثر اور معتدل طریقہ کار اختیار کرے تاکہ پی ٹی اے کی درخواست پر غیر قانونی مواد کا پتا لگا کر اسے حذف کیا جاسکے اور پاکستان میں ایسے مواد کو ناقابل رسائی بنایا جاسکے۔

بیان میں کہا گیا کہ اتھارٹی مقامی قوانین کی تعمیل، سماجی اقدار اور یوٹیوب کے اپنے کمیونٹی معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم کو پاکستان کی ڈیجیٹل مارکیٹ میں آگے بڑھنے کے لیے سہولت اور مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

واضح رہے کہ 28 اگست کو بھی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے یوٹیوب سے یہی مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی اے کا یوٹیوب سے غیر اخلاقی، نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد ہٹانے کا مطالبہ

پی ٹی اے کے بیان میں کہا گیا کہ پی ٹی اے نے قابل اعتراض مواد کو فوری طور پر ہٹانے اور اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایسے مواد کا پھیلاؤ روکنے کے لیے یوٹیوب سے رابطہ کیا۔

خیال رہے کہ 22 جولائی کو سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔

سوشل میڈیا اور ویب اسٹریمنگ ویب سائٹس پر قابل اعتراض مواد کی موجودگی سے متعلق سماعت کے دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے تھے کہ ہمیں آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں، ہم عوام کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں، ہماری کارکردگی اور فیصلوں پر عوام کو بات کرنے کا حق ہے لیکن سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ہمارے خاندانوں کو نہیں بخشا جاتا۔

ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے تھے کہ امریکا اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں، کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے۔

جسٹس قاضی امین نے پوچھا تھا کہ کیا ایف آئی اے اور پی ٹی اے نے دیکھا ہے کہ یوٹیوب پر کیا ہورہا ہے؟ ایسے جرم کے مرتکب کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟

اس پر عدالت میں پی ٹی اے حکام نے بتایا تھا کہ ہم انفرادی مواد کو ہٹا نہیں سکتے، صرف رپورٹ کرسکتے ہیں۔

عدالتی ریمارکس کے بعد 22 اور 23 جولائی کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر (یوٹیوب بین) کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر رہا تھا اور کئی افراد نے اس کی ممکنہ بندش کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری اور تانیہ ایدورس کی یوٹیوب پر ممکنہ پابندی کی مخالفت

جہاں عام افراد نے یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا وہیں شوبز شخصیات نے بھی یوٹیوب کی ممکنہ بندش کی مخالفت کی تھی۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدورس نے سپریم کورٹ کی جانب سے یوٹیوب کی بندش کا عندیہ دینے کے بعد اس کی ممکنہ بندش کی مخالفت کی تھی۔

فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عدالتیں اور پی ٹی اے مورل پالیسنگ اور بندش کے معاملے سے دور رہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر مبنی ایپس پر پابندیاں، پاکستان کی ٹیک انڈسٹری کو نقصان پہنچائے گی اور ٹیکنالوجی کی ترقی مستقل طور پر رک جائے گی، ہم ابھی مشکل وقت سے باہر نہیں آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں