وفاقی حکومت کا تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے پر غور

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2020
وفاقی وزیر نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے سے متعلق حتمی مشاورت 7 ستمبر کو ہوگی—تصویر : ڈان نیوز
وفاقی وزیر نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے سے متعلق حتمی مشاورت 7 ستمبر کو ہوگی—تصویر : ڈان نیوز

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ 15 ستمبر سے لے کر 30 ستمبر تک اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بتدریج کھولنے کی تجویز زیر غور ہے جس کے تحت حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پرائمری اسکول 30 ستمبر سے کھولے جائیں گے۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے سے متعلق حتمی مشاورت 7 ستمبر کو ہوگی جس میں اس تجویز پر غور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی صحت ہماری اولین ترجیح ہے، ہم کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہتے جس سے بچوں کی صحت پر کوئی اثر پڑے لیکن حالات اچھے ہیں، انفیکشن اور اموات کی تعداد کم ہوگئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تمام صوبوں کا ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے پر اتفاق

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران بچوں کی تعلیم کا بہت حرج ہوا ہے بالخصوص چھوٹی جماعتوں کے بچوں کے لرننگ لیولز بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اس کے علاوہ نجی اسکولوں پر بہت اثر پڑا ہے خاص کر وہ اسکول کہ جن کی فیسیں کم تھیں ان پر بہت مشکل وقت آیا ہے.

کورس کو تعلیمی سال کی بقیہ مدت کے حساب سے کم کیا جائے، وزیر تعلیم

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کی بندش سے ہونے والے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ ٹیسٹ لے کر بچوں کے لرننگ لیولز میں آنے والے فرق کا جائزہ لیں اور اپنے پروگرام اسی حساب سے تشکیل دیں، ساتھ ہی تعلیمی سال مختصر رہ گیا ہے اس لیے کورس ورک کو اس طرح مناسب حد تک کم کرنے پر غور کیا جائے جس سے بچوں پر بوجھ نہ پڑے اور تعلیم کا بھی نقصان نہ ہو۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ سال تک کووڈ کی صورتحال یہی رہی تو آہستہ آہستہ اسکولوں اور امتحانات کے پرانے شیڈول پر آجائیں گے۔

اسکول کھولنے کے پیش نظر کورونا کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے صحت نے کہا کہ پاکستان میں کووڈ 19 کی صورتحال جون کے وسط کے مقابلے بہتر ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ بیماری ابھی موجود ہے اور کسی بے احتیاطی کے نتیجے میں دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ سب سے اہم تھا جس کے خاطر خواہ نتائج بھی نکلے ہیں۔

سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کیلئے کلاس سائز کم کیا جائے گا، ڈاکٹر فیصل

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو ایک حد تک ہی بند کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہماری آئندہ نسل نے تعلیم حاصل کرنی ہے، ہنر سیکھنا ہے، ایک دوسرے سے رابطہ کر کے سماجی معاملات بھی سیکھنے ہیں اس لیے کسی نہ کسی پوائنٹ پر تعلیمی اداروں کا دوبارہ کھولنا ناگزیر تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اگر بیماری کے حالات ملک بھر میں بہتر نہ ہوتی تو ہم تعلیمی اداروں کو کھولنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اب ہم کافی بہتر صورتحال میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 5 کروڑ طلبہ دوبارہ تعلیمی اداروں میں جانا شروع کریں گے تو خطرہ دوبارہ بڑھے گا اس خطرے کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے جس میں ایک فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ مختلف عمر کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولے جائیں گے تا کہ بچوں پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا جاسکے۔

ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ اس خطرے کو قابو میں رکھنے کے لیے جماعت میں بچوں کی تعداد کو کم رکھنا ہے جس کے لیے اسکول ایک جماعت کے بچوں کو دو کمروں میں یا مختلف اوقات میں تعلیم دیں، اس کے علاوہ سماجی فاصلہ بھی جماعت کے حجم کو کم کر کے برقر رکھا جاسکتا ہے۔

بچوں کو احتیاطی تدابیر سکھانے میں والدین، اساتذہ اپنا کردار ادا کریں، ڈاکٹر فیصل

انہوں نے کہا کہ اس بیماری کے لیے سب سے اچھی حکمت عملی ماسک کا استعمال ہے، ماسک خریدنے کی استطاعت کے حوالے سے اعتراض کا حل بتاتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ ضروری نہیں کہ سرجیکل ماسک استعمال کیے جائیں، کپڑے کا ماسک گھر میں بن سکتا ہے، 2 ماسک بنالیں اور دھو کر استعمال کرتے رہیں، ساتھ ہی ہاتھ دھونے یا سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرنے کو اپنانا ہوگا۔

معاون خصوصی برائے صحت نے بتایا کہ جو تعلیمی اداے کھولے جائیں گے ان میں چند منتخب کر کے ایک تناسب سے ہر 2 ہفتے بعد اساتذہ اور طلبہ کا ٹیسٹ کیا جائے گا تا کہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بیماری کا پھیلاؤ کس طرف جارہا ہے اور کہیں ہمیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت تو نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنز کا 15 اگست سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کام صرف اسکول، صوبہ یا ملک اکیلے نہیں سنبھال سکتا کیوں کہ 3 لاکھ کے قریب اسکول ہیں، 5 کروڑ بچے جبکہ تقریباً 20 لاکھ اساتذہ ہیں لہٰذا کچھ کردار والدین اور اساتذہ کو بھی ادا کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر فیصل نے والدین اور اساتذہ پر زور دیا کہ جن تعلیمی اداروں میں آپ کے بچے جارہے ہیں ان سے تعاون کریں، ان کی ہدایت پر عمل کریں، اس بیماری کے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر نہ صرف خود اختیار کریں بلکہ بچوں کو بھی سکھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بچے بیمار ہیں یا ان کی قوت مدافعت کم ہے انہیں پہلے مرحلے میں اسکول نہ بھیجیں دوسرا جن گھروں میں بزرگ موجود ہیں ان کا باہر سے آنے والے بچوں کا فاصلہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔

وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ

بعد ازاں وفاقی وزارت تعلیم نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں ہفتہ کی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ رواں سال موسم سرما کی تعطیلات بھی نہیں ہوں گی۔

وزارت تعلیم نے وفاقی نظامت تعلیمات کو مراسلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کے روز خصوصی کلاسز کا انتظام کیا جائے اور اساتذہ تعلیمی لحاظ سے کمزور طلبہ کو ہفتے والے دن خصوصی تیاری کروائیں۔

مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ہونے والے تعلیمی نقصان کا ازالہ کیا جائے۔

وفاقی وزارت تعلیم نے کہا کہ آئندہ سال وفاقی تعلیمی بورڈ کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات 15روز تاخیر سے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تمام اداروں کے سربراہان تعلیمی کلینڈر کے مطابق اپنے فریم ورک کی تیاری کریں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار میں نمایاں کمی کے بعد اب معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو احتیاط نہ کرنے کی صورت میں مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔

ملک میں اب تک 2 لاکھ 97 ہزار 596 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس میں سے 6 ہزار 335 مریض انتقال کر گئے جبکہ 2 لاکھ 82 ہزار 268 صحتیاب ہوگئے۔

آج 4 ستمبر کو کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووِڈ 19 کے مزید 398 نئے کیسز سامنے آئے اور 7 مریض انتقال کر گئے۔

اس کے علاوہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 343 مریض صحتیاب ہونے میں کامیاب رہے جس کے بعد ملک میں فعال کیسز کی تعداد 8 ہزار 993 ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں