اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کو امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کو ملک بدر کرنے سے روکتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔

ساتھ ہی عدالت نے سنتھیا رچی کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت تک ایک بیان حلفی جمع کروائیں جس میں ان کی تمام شکایات کی تفصیل ہو۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کی وزارت داخلہ کے احکامات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر امریکی بلاگر سنتھیا رچی اپنے وکیل عمران فیروز کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔

مزید پڑھیں: سنتھیارچی نے ویزا توسیع نہ کرنے کا اقدام عدالت میں چیلنج کردیا

بعد ازاں سماعت کے دوران عمران فیروز نے کہا کہ ویزا میں توسیع نہ کیے جانے کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ روزانہ بہت سے شہریوں کے ویزے مسترد کیے جاتے ہیں، وجوہات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس پر وکیل نے پھر کہا کہ کس قانون کے تحت سنتھیا رچی کا ویزا مسترد کیا گیا ہے؟ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ویزا مسترد کرنے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں ہوتی، ویزا بنیادی حق نہیں، ایک استحقاق ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آزادی اظہار رائے کا حق بھی غیر محدود نہیں ہوتا، آئین کے مطابق اس کی بھی حد ہوتی ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ ویزے کے علاوہ کوئی اور شکایت ہے آپ کی؟ جس پر درخواست گزار سنتھیا رچی کے وکیل نے کہا کہ دو درخواستیں ایف آئی اے میں زیر التوا ہیں۔

جس پر عدالت نے حکم دیا کہ اگلی سماعت سے پہلے سنتھیا رچی ایک بیان حلفی میں اپنی تمام شکایات درج کر کے جمع کرائیں۔

مزید برآں عدالت نے فریقین کو بھی نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ہفتے کو سنتھیا ڈی رچی نے اسلام آبا ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے ان کے ویزا میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور سیکریٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا تھا۔

اپنی درخواست میں سنتھیا ڈی رچی نے مؤقف اپنایا تھا کہ تمام متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے کے باوجود ان کے ویزا میں توسیع کی درخواست مسترد کی گئی، مزید یہ کہ وزارت داخلہ نے ایسا کرنے کے لیے کوئی وجوہات بیان نہیں کیں۔

اپنی درخواست میں سنتھیا ڈی رچی نے کہا تھا کہ ان کا ویزا زائد المیعاد ہوگیا تھا اور انہوں نے تمام ضروری دستاویزات کے ساتھ ورک ویزا کے لیے اپلائی کیا تھا۔

درخواست کے مطابق تاہم عالمی وبا کی صورتحال کے باعث اس پر کارروائی نہیں ہوسکی اور تمام غیرملکیوں کے ویزوں میں ایک جنرل آرڈر کے ذریعے توسیع کردی گئی اور اس سے درخواست گزار بھی مستفید ہوئیں۔

سنتھیا رچی کے مطابق انہوں نے اسپانسر کی تبدیلی کی وجہ سے ورک ویزا کے لیے ایک اور درخواست دی تھی جس کا فیصلہ کووڈ 19 کی وجہ سے نہیں ہوا تھا اور بعد ازاں وہ وزارت داخلہ کی جانب سے موصول ہونے والے خط کو دیکھ کر 'چونک' گئیں کہ ان کی وزا کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل پی پی پی کے کارکن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ یہ جواب جمع کروا چکی ہے کہ سنتھیا رچی پاکستان میں 'ریاست مخالف اور غیرقانونی سرگرمیوں' میں ملوث نہیں تھی۔

خیال رہے کہ 2 ستمبر کو وزارت داخلہ نے امریکی شہری کے ویزے کی مدت میں توسیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 15 روز کے اندر پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔

اس ضمن میں بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا تھا کہ سنتھیا ڈی رچی کے ویزے میں توسیع سے متعلق درخواست پر ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جنہوں نے اس درخواست کا جائزہ لینے کے بعد سفارش کی کہ ویزے کی معیاد میں توسیع نہ کی جائے۔

سنتھیا رچی تنازع

امریکی بلاگر سنتھیا رچی کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں لیکن چند ماہ قبل سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے حوالے سے ایک ’نامناسب‘ ٹوئٹ کے بعد ان کے پیپلز پارٹی سے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سنتھیا رچی کے خلاف درخواست پر سماعت، 'بزنس ویزے پر سیاسی بیانات غیر قانونی'

پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا جہاں سے حکام کو امریکی بلاگر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم جاری ہوا، انہوں نے اس کارروائی کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تاہم وہ مسترد ہوگئی۔

دوسرا اور سب سے اہم معاملہ سنتھیا رچی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر ریپ اور پی پی پی کے دو دیگر رہنماؤں پر دست درازی کرنے کا الزام عائد کیا جانا تھا۔

مذکورہ الزامات پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمٰن ملک کی جانب سے امریکی بلاگر کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں