'جرمنی کے شہری کورونا سے زیادہ ٹرمپ سے خوفزدہ'

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2020
جرمنی کے شہریوں نے ٹرمپ کی معاشی اورخارجہ پالیسی کو خطرناک قرار دیا—فائل/فوٹو:ڈان
جرمنی کے شہریوں نے ٹرمپ کی معاشی اورخارجہ پالیسی کو خطرناک قرار دیا—فائل/فوٹو:ڈان

جرمنی کےشہریوں نے کورونا وائرس سے زیادہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے خوفزدگی کا اظہار کردیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے شہریوں کے رویے سے متعلق سالانہ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ جرمن کورونا وائرس سے زیادہ امریکی صدر کی پالیسیوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اس سے یورپ کی بڑی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔

آرپلس وی انشورنس گروپ کی جانب سے جون اور جولائی میں کیے گئے سروے کے مطابق 53 فیصد شہریوں نے کہا کہ ٹرمپ دنیا کو زیادہ خطرناک جگہ بنائیں گے اور معیشت کو تباہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے عالمی ادارہ صحت سے تعلقات ختم کردیے

روایتی طور پر محتاط جرمنی کے شہریوں نے مہنگائی، معاشی صورت حال اور یورپی یونین کا قرض ادا کرنے والے ٹیکس دہندگان پر بوجھ کع بالترتیب دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر خطرہ قرار دیا۔

سروے میں کورونا وائرس 17ویں نمبر پر خطرناک قرار دیا گیا اور ایک تہائی افراد نے کہا کہ انہیں خود یا کسی اور کے کووڈ-19 سے متاثر ہونے سے متعلق علم پر تشویش ہے۔

خیال رہے کہ جرمن حکومت نے کووڈ-19 کے خلاف دنیا بھر میں بہتر اقدامات کیے تھے جس کے نتیجے میں کیسز اور اموات کی تعداد یورپ کے دیگر ممالک سے بہت کم رہی تھی، تاہم وبا کی نئی لہر میں کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جرمنی میں کیے گئے سروے میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ٹرمپ کی پالیسیاں کس لحاظ سے پریشان کن ہیں۔

آر پلس وی نے ہیڈلبرگ یونیورسٹی کے سیاسی امور کے ماہر مینفریڈ شمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی خوف ناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مصر، فرانس، جرمنی، اردن کا اسرائیل سے انضمام کا منصوبہ ترک کرنے کا مطالبہ

ٹرمپ کی پالیسیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'ان کی پالیسیاں خاص کر معیشت سے متعلق خطرناک ہیں جیسا کہ چین کے ساتھ تنازع کے علاوہ جرمنی سمیت اتحادیوں کے خلاف تجارت اور سیکیورٹی پالیسی پر حملے شامل ہیں'۔

سیاسی امور کے ماہر نے کہا کہ 'اس کے علاوہ بین الاقوامی تعاون سے امریکی دستبرداری اور ایران کے ساتھ کشیدگی بھی خطرناک پالیسی ہے'۔

سروے میں تقریباً 2 ہزار 400 شہریوں سے سوالات پوچھے گئے اور 'فیئرز آف جرمنز' کے عنوان سے یہ سروے 1992 سے سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا نے رواں برس مئی میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر چین کی 'کٹھ پتلی' ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا جس پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دیے

ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم پر سنگین الزامات عائد کرنے کے ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت سے کورونا وائرس سے متعلق تمام تر تعلقات اور روابط ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ انتباہ جاری کرنے کے باوجود عالمی تنظیم نے مؤثر اقدامات نہیں کیے۔

امریکا، عالمی ادارے کو امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا جبکہ وہ اقوام متحدہ کو بھی سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک ہے، تاہم کورونا وائرس کی وبا شروع ہوتے ہی امریکا اور عالمی ادارہ صحت کے درمیان کشیدگی دیکھی گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے شروع سے ہی کورونا وائرس کے معاملے پر عالمی تنظیم کو آڑے ہاتھوں لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں